آئندہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشستیں کم کیسے ہوئیں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ برس آٹھ فروری کو شیڈول عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کی گئی ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ کیا حلقہ بندیوں کا تعین کرتے وقت ملک کی مجموعی آبادی اور حلقے کی آبادی کو مدِنظر رکھا گیا ہے؟ اِس بحث کے ساتھ ہی حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اب پاکستان کی قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئی ہیں جس کے بعد خواتین کی مخصوص نشستیں اور اقلیتی اراکین ملا کر قومی اسمبلی کا ایوان 342 کے بجائے اب 336 اراکین پر مشتمل ہو گا۔ اسی طرح چاروں صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد 577 کے بجائے 593 ہو گی۔غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نینشنل کوارڈینیٹر محمد رشید چوہدری کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں کوئی بڑا فرق تو نہیں ہے مگر صوبوں کے درمیان آبادی کے تناسب کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق جب بھی مردم شماری ہو گی اس کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی ہوتی ہیں جس میں آبادی کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں گھٹا یا بڑھا نہیں سکتا، یہ اختیار پارلیمان کا ہے۔ تاہم اس وقت چونکہ قومی اسمبلی نہیں ہے، لہذٰا مجبوری میں الیکشن کمیشن نے آبادی کی بنیاد پر نشستوں کا تعین کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں 22 ہوں گی جب کہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں قومی اسمبلی کے حلقے، چھ سے کم کر کے پانچ کر دیے گئے ہیں۔ضلع مظفر گڑھ میں قومی اسمبلی کے حلقے ،چھ سے کم کر کے چار کر دیے ہیں۔ اِسی طرح ضلع ڈیرہ غازی خان کے حلقے چار سے کم کر کے تین کر دیے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق وزیر آباد کو ایک علیحدہ نشست دی گئی ہے جبکہ مری کا حلقہ ختم کر کے اُسے راولپنڈی میں ضم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سانگھڑ میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں میں سے ایک کم ہو کر دو رہ گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں اسلام آباد کی تین جنرل نشستیں ہوں گی۔صوبہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی سات جنرل نشستیں کم ہوئیں ہیں، بلوچستان میں دو اور وفاق میں ایک نشست کا اضافہ ہوا جب کہ صوبہ سندھ میں قومی اسمبلی کی مجموعی جنرل نشستوں کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔ اِسی طرح سابقہ فاٹا کی 12 نشستیں کم ہو کر چھ رہ گئی ہیں۔آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 جبکہ صوبائی اسمبلی کی عام نشستیں 297 ہوں گی۔صوبہ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جب کہ صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستیں ہوں گی۔ سندھ سےخواتین کی 14 مخصوص نشستیں ہوں گی۔صوبہ خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی 115 عام نشستیں ہوں گی۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 16، صوبائی اسمبلی کی 51 جب کہ خواتین کی چار مخصوص نشستیں ہوں گی۔

تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے کسے فائدہ ہو سکتا ہے؟کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں سے کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہو گا۔ ایک بات ضرور ہوتی ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں اکر کسی امیدوار کی کوئی یونین کونسل کسی دوسرے حلقے میں چلی جائیں اور اُس امیدوار نے وہاں کام کیے ہو ں تو اسے یہ نقصان ہو سکتا ہے جس سے اُس کے 40 ہزار سے 45 ہزار ووٹرز دوسرے حلقے میں چلے جاتے ہیں۔

Back to top button