26ویں آئینی ترمیم سے عدالتی ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ کیسے ہونے والا ہے؟

اتحادی حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ طے کروا دیا ہے کہ اب پارلیمنٹ واقعی سپریم ہو گی اور سپریم کورٹ کی ڈکٹیٹر شپ مزید نہیں چلے گی۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت نے سپریم کورٹ سے کروڑوں عوام کے منتخب کردہ وزرائے اعظم فارغ کرنے کا خود ساختہ اختیار بھی چھین لیا ہے۔ 26ویں ترمیم کے ذریعے 19ویں ترمیم کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب ججز کی تعیناتی کا اختیار ججز سے چھین کر اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی پر مبنی ایک 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔

نئی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اب سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز سمیت چار اراکین پارلیمنٹ بھی موجود ہوں گے، جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔

ججز کا تقرر کرنے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج کو چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے اب تین سینئیر ججز کے نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جو ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ اس کے بعد وزیر اعظم صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے۔

 منظور شدہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف جسٹس اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ریٹائر سمجھا جائے گا۔ نئی ترمیم کے بعد اب اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کی کارکردگی تسلی بخش نہیں نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کےلیے وقت دے گی۔ اگر وہ جج مقررہ مدت اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی جبکہ کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کےلیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔

پارلیمنٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم کی ہے۔ اب سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ تو کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی ازخود نوٹس لینے یا نہ لینے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ نئی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ کسی ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہور ہے تو وہ یہ مقدمہ کسی دوسری ہائی کورٹ میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔

اسی طرح بل میں آئین کے آرٹیکل 199 کے کلاز 1 میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ اب اسے شق 1 اے کہا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق ہے۔ اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کسی بھی معاملے پر نہ کوئی از خود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 203 ڈی میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ایپل کو متعلقہ اعلیٰ عدالت 12 ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔

26ویں آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔ اس بل کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔ اس آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات کسی دوسرے بینچ کو تفویض نہیں کیے جا سکتے۔ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی کارروائی ان کیمرا ہو گی تاہم اس کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔

آئینی ترمیم کی منظوری سے عدلیہ کے اختیارات پر کتنا اثر پڑے گا؟

اب بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کو اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ اس آئینی ترمیم سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے حامی ججوں کو نہ صرف سپریم کورٹ میں بلکہ ان کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ججز جن کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ ان کے ججز نہیں، ان کے اختیارات کو کم کر کے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا ایک ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ ’یہ ہمارے جج ہیں اور یہ آپ کے جج ہیں۔‘ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا یہ حکومت کی جانب سے اس آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ایسا انتظام کرنے کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کا ایک ایسا آئینی بینچ ہو جس کو بلانے اور رکھنے کے اختیارات جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوں۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ خوف تھا کہ متوقع طور پر نئے چیف جسٹس کوئی ایسا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں جس سے حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائے لہذا آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس انتظام سے عدلیہ کی آزادی پر اتنا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جوڈیشل کمیشن میں حکومت و اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ ساتھ دیگر رکن اور سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز بھی شامل ہوں گے اور وہاں مشترکہ فیصلہ سازی ہو گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ یہ محسوس کرتی ہے کہ ماضی میں عدلیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ذاتی پسند اور ناپسند سے ایسے فیصلے دیے جن کی توجیح کرنا بھی مشکل تھی، اس لیے اب عدلیہ کو مذید فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا تھا۔

Back to top button