سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کیس میں نظر ثانی کی درخواست منظور کر لی
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس میں متفقہ طور پر نظر ثانی درخواستیں منظور کر لی گئیں۔تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔
قبل ازیں عمران خان کے وکیل علی ظفر نے آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی کیس کی سماعت کا بائیکاٹ کردیا تھا۔سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے، بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس نعیم افغان،جسٹس امین الدین اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نےکہا کہ عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہوناچاہتے ہیں، ایک مجوزہ آئینی پیکج کا آرٹیکل 63 اے سےتعلق ہے، اخبارات میں کہاگیا 25 اکتوبر تک ترمیم ضروری ہے،حکومتی سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ آئینی ترمیم لے کر آئیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں بتایاکہ عدالتی حکم پر عمران خان سے ملاقات ہوگئی ہے، ملاقات میں پولیس افسران بھی ہمراہ بیٹھے رہے،ملاقات کوئی وکیل اور کلائنٹ کی ملاقات نہیں تھی۔ان کا کہناتھا کہ عمران خان نے خود ویڈیو لنک پر پیش ہونےکی استدعا کی ہے، پہلےمعلوم ہوجائے کہ عمران خان کو خود دلائل کی اجازت ملتی ہےیا نہیں، عمران خان سے ملاقات آزادانہ نہیں ہوئی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے کون سی خفیہ باتیں کرناتھیں، آپ نے صرف آئینی معاملےپر بات کرنا تھی، علی ظفر صاحب، آپ بلاجواز قسم کی استدعا کررہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا میں عمران خان کی جانب سےکچھ کہناچاہتا ہوں، میں عمران خان کی ہی بات کروں گا، اگر عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے، حکومت کچھ ترامیم لاناچاہتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاآپ نےبات کرنی ہے تو آج سےنہیں بلکہ شروع سے کریں، جس پر بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا میں جو بات کرنا چاہ رہاہوں وہ آپ کرنے نہیں دےرہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیےآپ سیاسی گفتگو کر رہے ہیں تاکہ کل سرخی لگے،جس پر بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا آج بھی اخبار کی ایک سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا ہمیں اس بات کا معلوم نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا حکومت آئینی ترمیم لارہی ہےاور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دےگی، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں، کل آپ نےایک طریقہ اپنایا،آج دوسرا طریقہ اپنرہے ہیں،ہم آپ کی عزت کرتے ہیں،آپ ہماری عزت کریں۔
چیف جسٹس کا کہناتھا ہارس ٹریڈنگ کاکہہ کر بہت بھاری بیان دےرہےہیں، ہارس ٹریڈنگ کیاہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔
عمران خان کےوکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہناتھا آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں جب کہ جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا عدالت نے 63 اے پر اپنی رائےدی تھی کوئی فیصلہ نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا نے 63 اے کی تشریح سےمتعلق نظرثانی اپیل کی سماعت کا بائیکاٹ کرتےہوئے کہا عمران خان کاکہنا ہے بینچ کی تشکیل درست نہیں،حصہ نہیں بنیں گے۔
سپریم کورٹ نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا جس پر علی ظفر کا چیف جسٹس سےمکالمہ کرتےہوئے کہناتھا آپ اگر کیس کا فیصلہ دیتےہیں تو مفادات کا ٹکراؤ ہوگا،چیف جسٹس نے کہا آپ جو بول رہے ہیں اسے نہ سنیں گے نہ ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے،کیا آپ بطور وکیل یا عدالتی معاون ہمیں دلائل دےسکتے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہناتھا بطور عدالتی معاون دلائل دےسکتا ہوں۔
آئینی حدود سے باہر نکل کر کھیلنے والےاداروں کو واپس آئینی حدود میں آنا ہوگا : بلاول بھٹو