آزادکشمیر میں اگلی حکومت PMLN بنائے گی یا PTI؟

جہاں ایک طرف آزاد کشمیر کی موجودہ حکمران جماعت نواز لیگ کی قیادت الیکشن جلسوں کے دوران یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن کے نتیجے میں کشمیر میں اگلی حکومت وہی بنائے گی وہیں وفاق کی حکمران جماعت تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر کا الیکشن بھی تحریک انصاف جیتے گی اور وہاں اگلی حکومت بنائے گی۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کون سی جماعت بنائی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تو کشمیر کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی کردار ادا نہ کیا تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ نواز کیگ دوبارہ اقتدار میں آ جائے، لیکن ایسا ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ اب پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ لہذا زیادہ امکان یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسی جماعت کو اقتدار میں آنے دے گی جو اس کے کہنے میں ہو، نا کہ اسکے خلاف چلے۔
یاد رہے کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن 25 جولائی کو ہو رہے ہیں جس میں ملک کی اہم سیاسی و مذہبی جماعتیں حصہ لے رہی ہے۔ جب کہ حالیہ ہفتوں میں جلسے جلوسوں کے ذریعے انتخابی سرگرمیاں بھی زور پکڑ چکی ہیں۔
البتہ مبصرین کہتے ہیں کہ ماضی کے انتخابی نتائج سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس خطے میں عموماً وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔
آزاد کشمیر کے خطے کو پاکستان ‘آزاد جموں و کشمیر’ قرار دیتا ہے جس کی موجودہ قانون ساز اسمبلی کی آئینی مدت 29 جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔
پانچ برس قبل جولائی ہی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں تب کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین، تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے ازاد کشمیر میں حکومت بنا کر اپنی پارٹی کے سربراہ راجہ فاروق حیدر کو وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا۔
پاکستان اور گلگت بلتستان کی طرح انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا طریقۂ کار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کی میعاد ختم ہوتے وقت انتخابات اسی حکومت کے تحت ہوتے ہیں جب کہ خطے کی سطح پر قائم الیکشن کمیشن خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ آزاد کشمیر کی آئندہ قانون ساز اسمبلی میں ارکان کی کل تعداد 53 ہو گی جب کہ گزشتہ اسمبلی میں یہ تعداد 49 تھی۔قانون ساز اسمبلی کی 53 نشستوں میں سے 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں جب کہ خواتین کے لیے پانچ، ٹیکنو کریٹ، علما مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ 45 براہ راست نشستوں میں سے 33 جموں و کشمیر کے علاقے میں ہیں جہاں 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں 12 لاکھ 97 ہزار خواتین شامل ہیں جب کہ 12 نشستیں پاکستان کے مختلف حصوں کی ہیں، جس کے چار لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 931 خواتین شامل ہیں۔
جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ کے لیے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ان میں سے چھ نشستیں جموں اور چھ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ البتہ مہاجرین کی ان 12 نشستوں کے حوالے سے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے سیاسی اُمور پر نظر رکھنے والے صحافی جلال الدین مغل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو جموں و کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی پاکستان میں موجود ان حلقوں میں عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے ان حلقوں میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنا اثر و رُسوخ استعمال کرتی ہیں اور یوں آزاد کشمیر میں آزاد اور شفاف الیکشن ہونے کے باوجود پاکستان میں موجود یہ 12 حلقے خطے کی مجموعی انتخابی سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔”
یاد رہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے زیرِ انتظام آنے کے بعد کشمیر کے اس حصے میں طویل عرصے تک صدارتی نظامِ حکومت رہا اور 1975 میں پارلیمانی نظام متعارف کروائے جانے کے بعد یہاں انتخابی سیاست کا آغاز ہوا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم حکومت کا اثر یہاں ہونے والے انتخابات پر واضح نظر آتا ہے اور اس خطے کے انتخابات میں عموماً وہی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے جسے پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ 2018 میں ہونے والی 13 ویں ترمیم کے بعد آزاد کشمیر کے انتخابی قوانین میں تبدیلی لائی گئی تھی جب کہ جموں و کشمیر الیکشن ایکٹ 2020 کے نفاذ کے بعد خطے میں پہلے ہی سے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔ نئی ترامیم کے تحت صرف اُن سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے جو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایتی ہوں۔ یوں آئین کی رو سے ایسی تنظیموں یا افراد پر انتخابات میں حصہ لینے پر پاپندی ہے جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہیں رکھتے۔ اس پابندی کا اطلاق انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کشمیر کے انتخابی قانون کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدوار کے لیے ایک ایسے حلف نامے پر دستخط کرنا ضروری ہے جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔ اسی طرح رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف اٹھایا جائے۔
اب نئے الیکشن ایکٹ کے تحت 32 سیاسی و مذہبی جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن میں پاکستان کی مرکزی اہم جماعتوں کے علاوہ کشمیر کی سطح پر قائم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کو بھی آزاد کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ البتہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کے خطوں میں فعال خود مختار کشمیر کی حامی قوم پرست تنظیمیں جیسے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ کو رجسٹریشن نہیں دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی تہاڑ جیل میں قید حریت پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کی سربراہی میں فعال ‘جے کے ایل ایف’ ریاست جموں و کشمیر سے پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے مکمل انخلا اور کشمیر کی خود مختاری چاہتی ہے۔ ازاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں مقیم ‘جے کے ایل ایف’ کے ایک رہنما نےبتایا کہ ان کی تنظیم خود مختار کشمیر کی حامی ہے جب کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ الحاق کی مخالف ہے۔ ان کے بقول ایک جانب حکومت ہمیں انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیتی تو دوسری جانب ہم بھی اس حلف نامے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے رہتے ہیں۔”
جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور تحریک لبیک کے علاوہ متعدد جماعتیں حصہ لے رہی ہے۔ جہاں ایک طرف آزاد کشمیر کی موجودہ حکمران جماعت نواز لیگ کی قیادت الیکشن جلسوں کے دوران یہ دعوی کر رہی ہے کہ آزاد کشمیر میں اگلی حکومت وہی بنائے گی وہیں وفاق کی حکمران جماعت تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر کا الیکشن بھی تحریک انصاف جیتے گی اور وہاں اگلی حکومت بنائے گی۔