آمریت کے وائرس کا شکار شریف پیرزادہ کی کہانی

ایک زمانے میں سید شریف الدین پیرزادہ پاکستان کے نمایاں ترین مگر متنازع قانون دان تھے، ان کی قانونی ذہانت نے نازک ترین لمحات میں ملک کی آئینی تاریخ کا رخ متعین کیا۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے طالع آزما فوجی جرنیلوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے وہ نئے نئے راستے بنائے جن کے باعث ملک آگے بڑھنے کی بجائے کئی دھائیاں پیچھے چلا گیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ شریف الدین پیرزادہ کی سوچ ایک وائرس ہے اور وہ آج بھی حکمراں جماعت تحریک انصاف کے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی صورت میں زندہ ہیں۔
ایک طرف جہاں شریف الدین پیرزادہ کے پاس آئین و قانون کے سختی سے پابند قائداعظم محمد علی جناح کا سیکریٹری ہونے کا اعزاز تھا، تو وہیں پیرزادہ نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنی قانونی خدمات فراہم کیں، تاکہ ان کے غیر جمہوری اقدامات کو آئینی تحفظ دیا جاسکے یعنی بیریسٹر شریف الدین پیرزادہ پاکستان میں ہر فوجی آمر کی بیساکھی رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو انہوں نے ہی اقتدار میں رہنے کے آئینی اور قانونی چور راستے بنا کر دیے۔ اگرچہ بعض حلقے انہیں 1983 کے آئین کے خالقوں میں شمار کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ 1973 کے آئین کو پاؤں تلے روندنے والے ڈکٹیٹرز کو آئینی تحفظ دلانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آئینی شقوں پر ان کی مہارت کی وجہ سے انھیں ’آئینی جادوگر‘ بھی کہا جاتا تھا۔
سید شریف الدین پیرزادہ اپنے 94ویں جنم دن کے روز جمعہ کی صبح کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کی پیدائش 12 جون 1923 کو انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں ہوئی۔ ان کے والد بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے اور انڈین سول سروس میں رہے۔شریف الدین پیرزادہ نے اپنے کیرئیر کی ابتدا بمبئی ہائی کورٹ سے کی۔ وہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے جونیئر بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی لا فرم قائم کی۔ ان کا شمار پاکستان کے مہنگے ترین وکلا میں کیا جاتا تھا۔وہ حکومت پاکستان کے کئی اہم منصب پر فائز رہے۔ انھوں نے دو بار بحیثیت وزیر خارجہ، تین بار اٹارنی جنرل اور پھر سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے سینیئر مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے۔ 1996 سے 2008 تک وہ اعزازی سفیر بھی رہے جس کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ یہ تمام منصب ان کے پاس زیادہ تر فوجی حکومتوں کے دوران رہے۔شریف الدین پیرزادہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا انہوں نے کبھی کسی فوجی حکمران کی طرف داری نہیں کی بلکہ قانونی مشیر کے طور پر انہیں معاونت فراہم کی۔پاکستان کے قیام کے 11 سال بعد جنرل ایوب خان کے نافذ کیے گئے پہلے مارشل لاء کی انہوں نے حمایت۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان نے ان کے علاوہ دیگر وکلا منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بلایا تھا جبکہ جنرل ضیاالحق نے چیف جسٹس کے کہنے پر ان کا انتخاب کیا تھا لیکن اے کے بروہی کو بھی شامل رکھا گیا۔
پاکستان میں عدلیہ نے جب بھی فوجی حکومت کو نظریہ ضرورت کے تحت زندگی بخشی تو اس میں ہر بار شریف الدین پیرزادہ کی حکمت عملی اور دلائل اہمیت کے حامل ہوتے۔ وہ آئین کی تشریح اپنے نظریے اور سوچ کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرنے میں اکثر کامیاب رہتے۔میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب صدر پاکستان سے اسمبلیوں کو معطل کرنے کے اختیارات واپس لیے گئے تو آئینی درخواست کی سماعت کے لیے عدالت نے انہیں معاونت کے لیے طلب کیا۔ شریف الدین پیرزادہ نے ان اختیارات کو سیفٹی وال قرار دیا اور اس کو جاری رکھنے کی حمایت کی تھی۔ ان اختیارات کے تحت ہی محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں معطل کی گئی تھیں۔پاکستان کے آخری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو بھی انہوں نے آئینی راستہ نکال کر دیا تھا۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنے ایک انٹرویو میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پہلی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اجلاس میں تمام جنرلز موجود تھے اور ان جنرلز کا کہنا تھا کہ مارشل لاء کا اعلان ہو اور جنرل مشرف چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنیں۔’میں سنتا رہا۔ اس کے بعد مشرف کو کہا کہ کیا ہم اکیلے بیٹھے سکتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور مارشل لاء درست نہیں۔ آپ کی سول طرح کی حکومت ہونی چاہیے۔شریف الدین پیرزادہ نے ہی جنرل پرویز مشرف کو ملک کا چیف ایگزیکیٹو بننے کا مشورہ دیا تھا اور اس منصب کے لیے آئینی ڈرافٹ بنا کر دیا، جس طرح انہوں نے جنرل ضیاالحق کو بنا کر دیا تھا لیکن اس بار اس میں کچھ تبدیلیاں تھیں۔شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ پرویز مشرف نے ڈرافٹ دیکھ کر کہا تھا کہ اس میں تو مارشل لاء کا کوئی ذکر نہیں، لوگ ہمارے احکامات نہیں مانیں گے جس کے بعد انہوں نے مشرف کو یقین دھانی کرائی کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کر چکی تھیں۔پاکستان میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے بعد ملک میں وکلا کی سب سے بڑی جدوجہد چلی تو شریف الدین پیرزادہ اپنی کمیونٹی کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے۔ انہوں نے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ اس کی مخالفت کرتے۔
شریف الدین پیرزادہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعدد بار پاکستان کی قیادت کی اور وہاں ہیومن رائٹس کونسل اور سکیورٹی کونسل میں خطاب کیا۔ اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے جج اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے منتخب سیکریٹری کے منصب پر بھی فائز رہے۔ شریف الدین پیرزادہ کو 1998ء میں نواز شریف حکومت نے نشانِ امتیاز عطا کیا ۔شریف الدین پیرزادہ پاکستان کے قیام کی تاریخ، محمد علی جناح کی زندگی اور پاکستان کے آئین سمیت دیگر موضوعات پر دس کے قریب کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ پیرزادہ کی تصانیف میں ‘قراردادِ پاکستان اور لاہور کا تاریخی اجلاس’، ‘قائدِ اعظم محمد علی جناح کے خطوط’، ‘پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی تحفظ’، تین جلدوں پر مشتمل ‘تخلیقِ پاکستان’ اور تین جلدوں پر مشتمل ‘قائدِ اعظم محمد علی جناح کی تحریروں کا مجموعہ’ شامل ہے۔ سید شریف الدین پیرزادہ کئی برس کینسر کے موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد 2 جون 2017 کو 93 برس کی عمر میں وفات پا گئے ۔
ناقدین کے مطابق آئین کے ساتھ آنکھ مچولی کی جو بنیاد شریف الدین پیرزادہ نے ڈالی تھی وہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین توڑنے والوں کو ہر دور میں کوئی نہ کوئی ’شریف الدین پیرزادہ‘ ضرور میسر ہوتا ہے۔ ’شریف الدین پیرزادہ‘ مفاد پرستی اور ہوس اقتدار کی اس سوچ کا نام ہے جس کی منزل صرف اور صرف مفادات کا حصول ہوتا ہے۔موجودہ دور میں بیرسٹر فروغ نسیم بہت دلچسپ کردار ہیں۔ دھیمے مزاج کے فروغ نسیم نے سیاست کا آغاز ایم کیو ایم سے کیا۔ الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا قرار دے کر سینیٹر منتخب ہوئے اور سیدھے وزارت قانون تک جا پہنچے۔ کچھ ہی عرصۂ میں وہ ایم کیو ایم سے زیادہ تحریک انصاف کی ’آنکھوں کا نور‘ بن گئے۔ کنونیر ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے فروغ نسیم کو وزارت کے لئے نامزد نہیں کیا لیکن وہ آج بھی وزیرقانون ہیں۔حالیہ کچھ عرصے میں ان کا ایسا کردار سامنے آیا ہے کہ وہ دور جدید کے شریف الدین پیرزادہ محسوس ہو رہے ہیں۔