اسرائیل نواز امریکی سینیٹرز کھل کر عمران کے حق میں کھڑے ہو گئے
بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی قیادت کے مسلسل ترلوں اور منتخب کے بعد پاکستان مخالف اسرائیل نواز امریکی سیاستدان ایک بار پھر عمران خان کے حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ عمران خان کے حمایتی امریکی سینیٹرز نے حکومت پر بانی پی ٹی آئی پر جیل میں تشدد کے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرونی آقاؤں کو ایک بار پھر قیدی نمبر 804کی فکر ستانے لگی۔ اسرائیل نواز دو امریکی ارکان کانگریس نے اپنے وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھا ہے کہ ان کے ’’اثاثے یعنی عمران خان‘‘ کو قید تنہائی سے نکالا جائے۔
مبصرین کے مطابق جہاں ایک طرف پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی صحت بارے مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں بانی پی ٹی آئی کو جیل میں زہر دینے کے الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت تو بظاہر اپنے بانی چیئرمین کے لیے’’پریشان‘‘ ہے ہی۔تاہم اسرائیل کے پٹھو ارکان کانگریس کو عمران خان بارے پارٹی قیادت سے بھی زیادہ تشویش اور تکلیف ہے۔ اسی تکلیف میں مبتلا دو کانگریس مین نے عمران خان بارے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو باقاعدہ خط لکھ مارا ہے۔
ری پبلکن تھامس آر سوزی عرف ٹام سوزی اور جیک برگ مین نے اس خط میں کہا ہے کہ ’’کانگریسی پاکستان کاکس کو چیئرز کے طور پر ہمیں عمران خان کی قید اور خاص طور پر قید تنہائی سے متعلق اطلاعات پر سخت تشویش ہے۔ ہم عمران خان کی موجودہ صورت حال پر تحریری درخواست کر رہے ہیں کہ محکمہ خارجہ ہمیں پاکستان میں بدلتی ہوئی صورتحال پر سہ ماہی اپ ڈیٹ فراہم کرے۔ جس قدر ممکن ہو اس معاملے پر ہمیں بریف کرنے کے لیے ایک نمائندہ مقرر کیا جائے‘‘۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی ارکان کانگریس کو بانی پی ٹی آئی کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ بالخصوص جب سے عمران خان کو آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے تب سے اسرائیل نواز امریکیوں کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ انہیں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جمہوریت کی پامالی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ملک کے خلاف اس پروپیگنڈے پر ارکان کانگریس کو لگانے میں پی ٹی آئی کے اوورسیز کارندے پیش پیش ہیں۔ انہی کی فرمائش پر ارکان کانگریس نے تازہ لیٹر امریکی وزیرخارجہ کو لکھا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ پاکستان میں متعدد وزرائے اعظم کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے محروم کیا گیا اور انتہائی خطرناک مقدمات بناکر قید تنہائی سمیت کال کوٹھریوں میں رکھا گیا۔ لیکن سیاسی و انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے پیٹ میں کبھی مروڑ نہیں اٹھا۔
عمران خان کی حمایت میں بولنے والے امریکی ارکان سینیٹ ہوں یا کانگریس مین، ان میں ایک بات مشترک دکھائی دیتی ہے کہ وہ یہودی النسل ہوتے ہیں یا اسرائیل نواز۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو تازہ خط لکھنے والے دونوں ارکان کانگریس کی بھی یہی کہانی ہے۔ ان میں سے ٹام سوزی رواں برس کے اوائل میں ہی دوبارہ کانگریس کا رکن بنا ہے۔
اس کی جیت میں یہودی ووٹرز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑتا ہے۔ وہاں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ امریکی یہودی لابی کے لیے سوزی کی کامیابی اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہ صہیونی عزائم اور فلسطین میں نہتے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام سے متعلق اسرائیلی پالیسی کا زبردست حامی ہے۔
سب سے پہلے پاکستان کی بجائے سب سے پہلے عمران خان کیوں؟
اسی طرح عمران خان بارے خط لکھنے والا دوسرا سینیٹر جیک برگ مین بھی یہودیوں اور اسرائیل کی آنکھ کا تارہ ہے۔ وہ نہایت بے شرمی سے فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کے حق دفاع سے تعبیر کرتا ہے۔
ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی ٹام سوزی، جیک برگ مین اور ان جیسے دیگر اسرائیل نواز اور فلسطینیوں کے قتل عام کے حامی ارکان کانگریس سے اپنی حمایت میں بیان، خطوط اور قراردادیں منظور کراکے خوشی سے بغلیں بجاتی ہے۔ جب کہ عمران خان کے اندھے تقلید کار اسے اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔
حالانکہ یہ تمام بیانات اور قراردادیں اب تک بے کار کی مشق ثابت ہوئی ہیں۔ کیونکہ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانا تو دور کی بات یہ اسرائیل نواز امریکی قانون ساز اب تک نہ تو عمران خان کے مقدمات ختم کرا سکے ہیں اور نہ انہیں جیل سے رہا کراسکے ہیں۔ اسی لیے ارکان کانگریس کا حالیہ خط بھی امریکی وزیر خارجہ نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق ارکان کانگریس کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ان کی سنی جارہی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ عمران خان کی اس حمایت کے بدلے ان کا ذاتی مفاد پورا ہو رہا ہے۔ ایک تو انھیں اپنے حلقہ انتخاب میں نہ صرف یہودیوں بلکہ عمران خان کے حامیوں کا ووٹ بھی مل رہا ہے اور دوسرا وہ عمران خان کی حمایت کے بدلے بڑی رقوم بھی وصول کر رہے ہیں۔
کیوں کہ ان ارکان کانگریس سے عمران خان کے حق میں بیانات جاری کرانے میں وہ امریکی پی آر اور لابنگ فرمیں بنیادی کردار ادا کررہی ہیں۔ جنہیں پی ٹی آئی نے بھاری معاوضے کے عوض ہائر کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ لابنگ فرمیں مفت میں تو بیانات نہیں دلواتی ہوں گی۔ تاہم مختصر بات یہ ہے کہ امریکی ارکان کانگریس کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کے عمران خان بارے بیانات یا قراردادیں رنگ لا رہی ہیں یا نہیں۔
البتہ یہ تاریخ ضرور لکھی جارہی ہے کہ جب اسرائیل اپنی بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ کر معصوم بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا تو ایسے میں پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی یعنی پی ٹی آئی اور اس کا سربراہ عمران خان اسی قتل عام کے حامی امریکیوں سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر اسی پارٹی نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کےلیے بلائے گئے قومی اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اپنے چہرے کی سیاہی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔