اسلام آباد میں بلائے فوجی دستوں کو گولی چلانے کا اختیار دے دیا گیا
وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج تعینات کرنے کا بنیادی مقصد تحریک انصاف کی قیادت کو یہ پیغام دینا ہے کہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں اور مزید شر پسندی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں تعینات کردہ فوجی دستوں کو امن عامہ برقرار رکھنے کےلیے شرپسندوں پر گولی چلانے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
ماضی میں بھی حکومتیں اسی آئینی شق کے تحت فوجی دستے بلاتی رہی ہیں، لیکن اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں حالات اتنے خراب نہیں تھے کہ فوج کو طلب کر لیا جائے، ان کے مطابق حکومت کے پاس پولیس بڑی تعداد میں موجود ہے اور رینجرز کی مدد بھی لی جا رہی تھی، ایسے میں فوجی دستوں کو بلانے کا مقصد عمران خان کے حامیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ایک صفحے ہر ہیں اور جلسے جکوسوں سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس سے ملکی معیشت بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی یے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے فوجی دستے اسلام آباد میں تعینات کرنے کا بنیادی مقصد تو او آئی سی کانفرنس کا پرامن انعقاد بتایا ہے، لیکن اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگلے چند دنوں میں آئینی ترامیم کا پیکج بھی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ او آئی سی کانفرنس کے انعقاد کے بعد خیبر پختون خواہ میں گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع اس امکان کو بھی رد نہیں کرتے کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور اور انکے ساتھیوں کے خلاف اسلام آباد پولیس کے مقتول اہلکار حمید کے قتل کا مقدمہ درج کر دیا جائے۔ اس کیس میں علی امین گنڈاپور کی گرفتاری بھی ڈالی جا سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں فوجی دستوں کو تعینات کیا ہے۔ سال 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے اور سال 2014 میں عمران خان کے ڈی چوک کے دھرنے کے لیے بھی فوجی دستوں کو اسلام آباد میں اسی آرٹیکل کے تحت طلب کیا جاتا رہا ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت مسلح افواج، وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں، جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں، کام کریں گی۔آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے جب کہ فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 245 کے مطابق فوج کی موجودگی کے دوران شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے ہونے والے اقدامات کو بھی ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔
آئینی ماہرین بتاتے ہیں کہ آرٹیکل 245 کے عمل میں لانے کے بعد ہائی کورٹ کے اختیارات اس آرٹیکل کی حد تک معطل ہو جاتے ہیں اور وہ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کر سکتیں۔ آرٹیکل 245 کی دو شقیں اہم ترین ہیں۔ شق نمبر 1 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیرِ اعتراض نہیں لایا جائے گا۔ شق نمبر 2 کے مطابق کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں، جس میں مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245 کی تعمیل میں مدد کے لیے کام کر رہی ہوں، بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل 199 کے تحت کوئی اختیارِ سماعت استعمال نہیں کرے گی۔
اسلام آباد میں فوجی دستے تعینات کرنے کے لیے ایک مجسٹریٹ کی جانب سے فوج کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو ایک مراسلہ لکھا گیا تھا جس میں فوجی دستوں کے اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔
گنڈا پور کی ناہلی نے خیبر پختونخواہ میں گورننس کا جنازہ کیسے نکالا ؟
اس لیٹر میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ فوجی دستوں کو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے شرپسندوں پر گولی چلانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ فوج کے پاس یہ اختیار پہلے سے موجود ہوتا ہے، تاہم اس غیرمعمولی مراسلے میں ہر قسم کی صورت حال میں کیا راستہ اختیار کرنا ہے، وہ طے کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2014 میں عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ایسی صورتحال کئی بار پیش آئی تھی، جب ڈیوٹی پر موجود بعض پولیس اہلکاروں نے اپنے افسران اور اس وقت کے وزیر داخلہ کے زبانی احکامات ماننے سے انکار کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ انھیں ’اِن رائٹنگ‘ ہدایات جاری کی جائیں۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ فوج نے وفاقی حکومت سے واضح انداز میں ہدایت نامہ جاری کرنے کی درخواست کی یو جس کے بعد وفاق نے ’رولز آف انگیجمنٹ‘ طے کیے۔ اس خط میں مذید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران فوجی دستے ’ہوسٹائل‘ عناصر جن میں ’پرتشدد ہجوم‘ اور ’شرپسند افراد‘ شامل ہیں، کے خلاف کارروائی کریں گے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ: ایسے ہجوم کو پہلے وارننگ جاری کی جائے۔ پھر
’وارننگ شاٹس‘ یعنی ہوائی فائرنگ کی جائے۔ ہجوم کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کا فوری اور موثر جواب دیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے ’کوئی قانون فوجوں دستوں کو اپنے دفاع یا کسی عمارت یا فرد کی حفاظت کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتا۔‘
اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی عدم موجودگی میں فوج کے پاس کسی بھی شخص کو حراست میں لینے کا اختیار بھی ہو گا جو کسی جرم کا مرتکب ہو یا ایسا کرنے کی دھمکی دے۔ فوج کو الیکٹرانک مانیٹرنگ کا لامحدود اختیار بھی ہو گا۔