اسلام آباد میں صحافیوں پر حملے کرنے والے چھلاوے کون ہیں؟

آج سے دس سال قبل مئی 2011 میں سینئر صحافی سید سلیم شہزاد کا قتل ہو یا 2021 میں اسد طور پر گھر میں گھس کر ہونے والا تشدد، اسلام آباد میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں سر پھرے اینٹی اسٹیبلشمینٹ صحافیوں کو اغوا، تشدد یا موت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ واقعات ملک کے دور دراز علاقوں میں پیش آئے ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ وسائل کی کمی کی بنا پر ان مقدمات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا لیکن اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس سیف سٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں سے لے کر جدید فرانزک آلات تک، ہر قسم کے وسائل موجود ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے کسی ایک بھی واقعے کی تفتیش منطقی انجام تک نہیں پہنچی اور ان حملوں میں ملوث چھلاووں کا بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف صحافی برادری میں کئی لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ریاستی ادارے خود ہی ان واقعات میں ملوث ہیں تو وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بےبس نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے سرکاری ٹٹو بھی موجود ہیں جو ان واقعات کو محض ڈرامہ بازی قرار دے کر صحافیوں پر ہونے والے تشدد اور اغوا کی خبروں کو خودساختہ قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا پہلا واقعہ اسلام آباد میں 29 مئی 2011 کو صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ پیش آیا تھا۔ سلیم شہزاد کو اسلام آباد کی گلیوں سے ہی اغوا کیا گیا اور پھر 31 مئی کو ان کی لاش منڈی بہاوالدین کی ایک نہر سے برآمد ہوئی۔ یاد رہے کہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس قتل کا الزام آئی ایس آئی پر لگایا تھا۔
اس مقدمے میں جوڈیشل کمیشن بنا، تحقیقات ہوئیں اور پھر کیس فائلوں میں دب گیا۔ سلیم شہزاد کی اہلیہ انیتہ سلیم نے بتایا کہ دس سال کے عرصے میں ان سے کسی نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کمیشن نے انھیں بلا کر ان کا بیان ریکارڈ کیا۔ ان کے مطابق سلیم شہزاد اپنے کام میں گھر والوں کو مداخلت نہیں کرنے دیتے تھے مگر ان سے قتل کے دو ماہ قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے انھوں نے گھر والوں سے خفیہ رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ انیتہ سلیم کے مطابق سلیم کو مارچ 2011 میں ریاستی اداروں سے منسلک اہلکاروں نے ملاقات کے لیے اپنے دفتر بلایا تھا۔ ان کے مطابق اس ملاقات کے بعد جب سلیم شہزاد واپس گھر آئے تو وہ پریشان بھی تھے اور غصے میں بھی تھے۔ ‘سلیم نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں نے مجھ سے بہت ترش انداز میں بات کی ہے اور وہ مجھ سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے میں ان کا ملازم ہوں۔‘ انھوں نے یہ کہا تھا کہ جس طرح ان اہلکاروں نے بات کی ہے وہ مناسب طریقہ نہیں تھا۔ انیتہ کے مطابق اس سے قبل بھی 2006 میں سلیم شہزاد کو افغانستان کے صوبے ہلمند میں اغوا کیا گیا تھا مگر جو 2011 میں ہوا اس کے بارے میں وہ آج تک کچھ نہیں جان سکی ہیں کہ آخر ایسی کون سی بات تھی جو بات قتل تک جا پہنچی۔ ان کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد ’جس دہشت گردی کے متعلق خبریں دیتے تھے اور اس پر لکھتے تھے، وہ آخر میں خود ہی اس کا نشانہ بن گئے۔‘ سلیم شہزاد کی بیٹی آمنہ سلیم کے مطابق انھیں آج تک ان کے والد کے قاتلوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ’اب تو ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف عالمی میڈیا کے چند اداروں کی حد تک ہی رہ گیا ہے، باقی تو کوئی اس قتل کا ذکر تک نہیں کرتا۔‘
سنہ 2020 میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے ملک کا سب سے خطرناک شہر قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اُس سال پورے ملک میں صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں سے ایک تہائی سے زیادہ وفاقی دارالحکومت میں پیش آئے۔ یاد رہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد میں دو بار نشانہ بنایا گیا: پہلی بار موٹر سائیکل پر دو نامعلوم افراد نے ان کا تعاقب کیا اور ان کے گھر کے قریب ان کی گاڑی کے فرنٹ شیشے پر زور سے اینٹ ماری، جس سے شیشے میں تو دراڑیں پڑیں مگر مطیع اللہ اپنی فیملی سمیت محفوظ رہے۔ پولیس تحقیقات کے مطابق حملہ آوروں نے مطیع اللہ کا تعاقب جناح کنونشن سنٹر کے قریب ڈپلومیٹک انکلیو کے داخلی راستے سے شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ ان حملہ آوروں کی حرکات سی سی ٹی وی فوٹیج پر نظر آئیں مگر ابھی تک مطیع اللہ اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ نہیں پتا کہ حملہ آور کون تھے اور ان کا کہاں سے تعلق تھا؟ پھر مطیع اللہ کو گذشتہ برس ایک سرکاری سکول کے باہر سے اغوا کیا گیا جہاں وہ اپنی اہلیہ چھوڑنے گئے تھے۔ واقعے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند اغوا کار پولیس کے یونیفارم میں تھے اور ان کی گاڑیاں بھی پولیس کی گاڑیوں سے ملتی جلتی تھیں۔ واضح رہے کہ مطیع اللہ جان طویل عرصے سے یوٹیوب پر اپنے چینل کے ذڑیعے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ مطیع کے مطابق ان کے اغوا کار تشدد کرتے ہوئے ان سے یہ پوچھتے رہے کہ ‘کیوں ایسی باتیں کرتے ہو، ابھی دیکھ لیتے ہیں۔‘ لیکن وہ رات گئے راولپنڈی کے قریب فتح جھنگ کے پاس سے مل گے تھے۔ مطیع اللہ کو اغوا کرنے والوں کے چہرے بھی سکول کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے اپنی آنکھوں میں محفوظ کیے مگر پولیس ابھی تک ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔ انھوں نے اگلے دن سپریم کورٹ کو اغوا سے متعلق تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس وقت ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا مگر اغوا کے بعد عدالت نے اس معاملے پر بھی از خود نوٹس لے کر انسپکٹر جنرل اسلام آباد سے جواب طلب کر لیا۔ تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور مطیع اللہ جان کے مطابق اس دوران ان کے اغوا کے مقدمے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
سینئر صحافی حامد میر پر بھی دو حملے ہوئے۔ اسلام آباد میں ان کی گاڑی کے نیچے بم لگا ہوا برآمد ہوا لیکن ابھی تک پولیس ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔ پھر جب ان پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو انھوں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو قصوروار ٹھہرایا۔ تاہم ان کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے ’طاقتور ملزم کو سمن جاری کیے مگر نہ وہ کمشین کے سامنے پیش ہوئے اور نہ ہی کمشین انھیں بلا سکا۔‘ حامد میر کے خیال میں جب کسی صحافی پر حملہ ہوتا ہے تو اسے پہلے الیکٹرانک چالان بھیجے جاتے ہیں جو واضح پیغام ہوتا ہے اس صحافی کہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ حامد میر کے مطابق شہر میں جو سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں وہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کیمروں میں ملزمان کی شناخت کے باوجود پولیس انھیں پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ حامد میر کے مطابق ان کے مقدمے میں کمشین رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکی ہے البتہ ایک جعلی رپورٹ ضرور شائع کروائی گئی جو انھیں کسی نے نہیں فراہم کی۔ ان کے مطابق تفتیش کے دوران جوڈیشل کمیشن کے تینوں اراکین ان سے بار بار پوچھتے رہے کہ ’کیا آپ ابھی بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں؟‘ ان کے مطابق ان کے مقدمے میں تحقیقات کو آگے نے بڑھانے میں تمام ریاستی مشینری رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے دور میں ابصار عالم چیئرمین پیمرا رہ چکے ہیں اور بطور صحافی متعدد اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں گولی مارنے کے واقعے سے قبل ان کی نگرانی کی جاتی رہی جس کے حوالے سے انھوں نے ٹویٹ بھی کیے۔ ان کے مطابق حملہ آور سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے جا سکتے ہیں اور پولیس نے انھیں یہی بتایا ہے کہ نادرا کو یہ فوٹیج بھیج دی گئی ہے اور جیو فینسنگ بھی کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق جب ان کے پاس شواہد آئیں گے تو پھر وہ کسی کو نامزد بھی کریں گے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بھی واقعات ہوئے مگر اب وہ بھی ان صحافیوں کے لیے خود انصاف کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ ابصار عالم کے مطابق یہ عدلیہ کی ناکامی ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ عدالت بااثر افسران کو بلا کر کیوں نہیں پوچھتی کہ جو کمیشن بنے تھے اور از خود نوٹس لیے گئے تھے ان کے نتائج کہاں ہیں؟
سینئر صحافی اعزاز سید بھی گذشتہ دو دہائیوں سے اسلام آباد میں تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں اور گذشتہ دس برس میں انھیں چار بار ہدف بنایا گیا۔ دو بار ان کے گھر پر حملے ہوئے، جس میں ایک بار ان کی گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا اور دوسری بار گیٹ پر چھ گولیاں چلائی گئیں۔ اعزاز سید کو ایک بار لہتراڑ روڈ پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سنہ 2017 میں انھیں چند نامعلوم افراد نے اسلام آباد کی پارک روڈ سے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اعزاز نے چاروں واقعات کی رپورٹ پولیس کو کی مگر دو واقعات میں پولیس نے ایف آئی آر تک ہی درج نہیں کی۔ اُس وقت درج کروائی گئی شکایت میں اعزاز سید نے دعوی کیا تھا کہ انھیں اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے دو اہلکاروں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ایک خبر کرنے سے باز رہنے کا کہا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں تھیں۔ جب اعزاز سید سے پوچھا گیا کہ ان چاروں مقدمات میں کیا پیش رفت ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ پولیس کسی ایک بھی مقدمے کو بھی منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ جب ان کے گھر پر فائر کیے گئے تو انھیں پولیس نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ آپ کو پتا ہے کہ ایسا کون کر سکتا ہے؟
حال ہی میں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی اسد طور نے بتایا کہ انھیں بھی ایک تسلسل سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کے مطابق خفیہ ایجنسی کے ایک افسر ان کے آبائی گھر پہنچ گئے اور ان کے والدین سے کہا کہ وہ انھیں سمجھائیں۔ ان کے مطابق ان کے خلاف مختلف مقدمات بھی درج کروائے گئے اور سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کے پیغامات بھی بھیجے گئے۔ اسد کے مطابق انھیں یہ اطلاعات بھی وصول ہوئیں کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہے کہ اگر انھوں نے زباں بندی نہ کی تو پھر کچھ بُرا ہو سکتا ہے۔ اسد کے مطابق ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ چونکہ ان کے خلاف مقدمات درج ہوگئے اور انھیں نجی ٹی وی چینل سے ملازمت سے بھی برطرف کر دیا گیا تو شاید جو کچھ برا ہونا تھا وہ ہو چکا۔ مگر ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اسد طور کے مطابق انھوں نے ایک کام ٹھیک کیا تھا: اچھی تنخواہ والی ملازمت سے ہاتھ دھونے کے باوجود وہ اسلام آباد کے ایک مہنگے رہائشی سیکٹر میں ہی قیام پذیر رہے۔ اسد کے مطابق ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو پھر ایسے میں کم از کم سیکورٹی والا علاقہ اور کیمروں والی رہائش معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ جب اسد کو زخمی حالت میں اسلام آباد کی پمز ہسپتال میں منتقل کیا گیا تو پولیس حکام بھی اس مقدمے سے متعلق حقائق کی چھان بین کے لیے ہسپتال پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں پولیس نے اسد کی رہائش کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا فیٹیج اپنی تحویل میں لے لیا جس میں ملزمان کے چہرے واضح نظر آتے ہیں۔ یہ فوٹیج ٹی وی چینلز پر بھی چلی، مگر ایسے واقعات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے مطابق اسلام آباد میں اس طرح کے مقدمات کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔

Back to top button