اسلام آباد میں فوج بلانے کے بعد عدالتی اختیارات کیوں محدود ہو گئے؟
وفاقی حکومت نے اسلام آباد پر دھاوا بولنے والے یوتھیوں کا پورا بندوبست کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شہباز حکومت نے قیام امن کےلیے اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات بھی محدود کر دئیے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فوج کی تعیناتی اور قیام امن کےلیے ان کی طرف سے کئے گئے اقدامات بارے کوئی بھی نوتس لینے سے روک دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی کے بعد جہاں شرپسندی کرنے والوں کی ٹھکائی یقینی ہو گئی ہے وہیں عدالتوں کے اختیارات بھی محدود ہو گئے ہیں تاکہ کوئی بھی عمراندار جج کسی بھی بہانے سے یوتھیوں کو پروٹیکشن نہ دے سکے
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے دوران امن و امان کی مکمل بحالی کی غرض سے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 245کے تحت فوج کی طلبی کا کیا مطلب ہے اور اس آرٹیکل کے تھٹ فوج کے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد عدالتوں کے اختیارات پر کیا اثر پڑتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے، اس آرٹیکل کے تحت فوج کے فرائض متعین کیے گئے ہیں۔فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا جب کہ فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتاتاہم دوسرے معاملات میں ہائی کورٹس کام کرتی رہیں گی۔آرٹیکل 245 کے عمل میں لانے کے بعد ہائی کورٹ کے اختیارات صرف اس آرٹیکل کی حد تک معطل ہو جاتے ہیں اور وہ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کر سکتی، تاہم ہائی کورٹس کی باقی روزمرہ کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں اور ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
قانونی ماہرین کے مطابق آرٹیکل 245 اور ایمرجنسی کے نفاذ میں فرق یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت فوج بلانے کا حکومت کو کوئی حساب نہیں دینا پڑتا لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر حکومت کو اسمبلی میں آ کر اس عمل کی توثیق کروانی پڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق آرٹیکل 245 کی مرحلہ وار تین شقیں ہیں جن کے مطابق مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایات پر بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور فوج کو طلب کئے جانے پر قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں کام کریں گی۔
عمران کی احتجاج اور دھرنوں کی پالیسی مسلسل ناکام کیوں رہی ہے؟
آرٹیکل 245 کے حوالے سے قانونی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس آرٹیکل کی شق 1 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیرِ اعتراض نہیں لایا جائے گا۔ جبکہ اسی آرٹیکل کی شق 2 کے مطابق کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں، جس میں پاکستان کی مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245 کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کےلیے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل 199 کے تحت کوئی اختیارِ سماعت استعمال نہیں کرے گی، مگر شرط یہ ہے کہ اس شق کا اس دن سے عین قبل جس پر مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کیا ہو، کسی زیرِ سماعت کارروائی سے متعلق عدالت عالیہ کے اختیار سماعت کو متاثر کرنا مقصود نہیں ہو گا۔ قانونی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ آرٹیکل 245 کی شق 3 کے مطابق کسی علاقہ سے متعلق کوئی کارروائی جسے اس دن یا اس کے بعد دائر کیا گیا ہو، جب مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام شروع کیا ہو اور جو کسی عدالتِ عالیہ میں زیرِ سماعت ہو،وہ کارروائی فوج کی اس علاقے میں تعیناتی کے عرصے تک کےلیے معطل رہے گی۔
خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ہی دوسری جانب خیبرپختونخوا سے آرمی کے دستوں کی روانگی جاری ہے۔ذرائع کے مطابق اس صورت حال میں آرمی دستے انتشار پسندوں کے عقب میں ڈیپلائے ہو چکے ہیں۔ جس کے ساتھ ہی انتشاریوں اور مسلح جتھوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق ڈپلائمنٹ کا مقصد عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرپسندوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی شر انگیزی سے نمٹنے کےلیے یہ دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاک فوج کے دستوں نے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اسلام آباد کے گردو نواح میں آرمی ڈپلائمنٹ کا عمل مکمل کر لیا گیا، جس کے ساتھ ہی پاک فوج کے دستوں نے ڈی چوک علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جب کہ آرمی کے چاک و چوبند دستوں نے علاقے میں گشت شروع کر دیا ہے۔