اسلام آباد کو شناخت دینے والے جرات مند صحافی

کہتے تو سب یہی ہیں کہ اسلام آباد کی کوئی شناخت نہیں، یہ افسروں کا قبرستان ہے، یہ بیوروکریٹس کی آماجگاہ ہے، یہ گریڈوں کا شہر ہے، یہ بابوؤں کی بستی ہے، یہاں کا کوئی کلچر نہیں، کوئی تاریخ نہیں، کوئی تمدن نہیں، یہ فائلوں پر چپ چاپ دستخط کرنے والوں کا شہر ہے، یہ ڈرائنگ رومز میں بحثیں کرنے والوں کا شہر ہے لیکن ایسے دور تاریک میں اسلام آباد کو بالآخر ایک شناخت مل ہی گئی ہے، یہ شہر اب اپنے جرات مند صحافیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ان پر ہونے والے بہیمانہ ستم کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، ان پر مبینہ حملوں کی وجہ سے معروف ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دوسرے شہروں اور صوبوں میں صحافیوں نے اس دور تاریک میں حق کی شمع روشن نہیں کی؛ ہر صوبے میں، ہر شہر میں کچھ سچ بولنے والے زندہ ہیں، پشاور میں حماد حسن جیسے لکھنے والے موجود ہیں، طارق آفاق جیسے نڈر صحافی وجود رکھتے ہیں، لاہور میں وجاہت مسعود ایسے دانشور ہیں۔ یہ وجاہت مسعود کا قطعی منصب نہیں کہ تین دہائیوں کی صحافت کے بعد ان کے کالم سنسر کر دیے جائیں ان کے تجزیے کو کسی سیاسی پروگرام میں جگہ نہ ملے۔ یہ میڈیا اب بونوں کا میڈیا ہے یہاں کسی بڑے قد کاٹھ کے دانشور کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اس کے بعد رضی دادا اور عمران شفقت بنا کسی خوف کے حق کی بات کرتے رہے ہیں لیکن جو آفتیں اسلام آباد کے صحافیوں پر اس دور میں پڑیں ان کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔
عمار کے مطابق حامد میر کے کیپٹل ٹاک کو دیکھ کر سیاست دان سیاست سیکھتے تھے، اہل مرتبہ اپنی حیثیت کو جانتے تھے، کل کیا ہونا ہے اس کا پتہ لگاتے تھے، ان کے کالم سے رہنمائی لیتے تھے۔ اب حامد میر گولیوں سے اپنا بدن چھلنی کروا چکے ہیں، پھر بھی سچ کہنے کا لپکا ہے، ایک دو منٹ کی تقریر کے جرم میں انکا پروگرام بند ہوا لیکن یہ بھی غنیمت ہے۔ یہاں تو پروگرام بند کرنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا، سانسیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔
ابصار عالم ایسی ہی ایک تازہ واردات کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن اس مجرمانہ حملے سے ابصار عالم کی سرشت میں فرق نہیں پڑا، گولی اس کے جسم کے آر پار ہو گئی مگر دلیری نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، خوف زدہ کرنے والوں کو اب بھی ابصار کی پیمرا میں پریس کانفرنس خوف زدہ کرتی ہے۔ عمار۔کہتے ہیں کہ طلعت حسین جیسے صحافی بے روزگار ہو گئے، جن کے بغیر اس ملک میں میڈیا کا تصور نہیں تھا، وہ اب بھی اپنے یو ٹیوب چینل سے سچ بات کرنے پر مصر ہیں، نہ کسی چینل کا ٹی وی پروگرام ہے نہ کسی اخبار کی ادارت، مگر پھر بھی سچ بولنے کا چسکا ہے جس کے لیے خوف کی ہر سرحد سے گزر جاتے ہیں۔
اسی طرح نصرت جاوید ہمارے اساتذہ میں سے ہیں ان کی تائید کے بغیر کوئی چینل لانچ نہیں ہوتا تھا، بولتا پاکستان اب چپ کروا دیا گیا لیکن لفظ تو چھینے نہیں جا سکتے، وہ اب بھی لکھنے پر سچ بولنے پر قادر ہیں، ایک حملہ ہو چکا ہے لیکن اپنے کالم میں اب بھی کسی خوف یا دباؤ میں نظر نہیں آتے۔ اب بھی خبر کی تلاش ان کا محبوب مشغلہ ہے۔
عمار یاد دلاتے ہیں کہ مطیع اللہ جان اغوا ہوئے مگر باز نہیں آئے، سوال کرنے سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا، سچ بولتے کوئی ٹوک نہیں سکتا۔ مطیع اللہ جان اغوا ہوئے، مار کھائی، نوکری سے گئے، پروگرام بند ہوا، مگر اب بھی اپنی ہٹ پر قائم ہیں، اپنے یو ٹیوب چینل سے وہ راز افشا کرتے ہیں جو کہتے زبان ڈرتی ہے۔ اسی طرح احمد نورانی پر حملہ ہوا، لوہے کی راڈوں سے پیٹا گیا، جان مشکل سے بچی، الزامات لگائے گئے، کردارکشی کی گئی، نوکری گئی، شدید تکلیف دہ مالی حالات دیکھے، ملک چھوڑنا پڑا لیکن باز نہیں آئے۔ دیار غیر میں ایک پاپا جانز کی خبر دی اور ملک کی ستر برس کی سیاست، تاریخ اور سوچ بدل دی۔
عمارم کے مطابق عمر چیمہ بھی بہت پہلے ریاستی ظلم کا شکار ہو چکے ہیں، مار پیٹ ہوئی، اغوا کیا گیا، زخمی حالت میں رات کے وقت موٹر وے پر چھوڑ دیا گیا، ہر وقت نوکری کا خدشہ درپیش ہے، ہر قدم پر جان کا خطرہ درپیش ہے مگر جھوٹ بولنے سے قاصر ہیں، اب بھی اپنی رپورٹنگ سے آگ لگا دیتے ہیں، ایوان ہلا دیتے ہیں۔ عمار۔کہتے ہیں کہ اب اسد طور تازہ واردات کا شکار ہیں، ان پر گھر۔میں گھس کر حملہ کیا گیا، ارادہ یہ تھا کہ انکی کہنیاں توڑ دی جائیں کہ ہاتھ لکھنے سے معذور ہو جائیں۔ اسد طور کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، رسیاں باندھ کر الٹا لٹکا کر پیٹا گیا، منہ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا مگر اب بھی سچ بول رہے ہیں، کسی سے نہیں ڈر رہے۔
اسی طرح اعزاز سید کے پاس بہت سے سوال ہیں، ان سوالات کی پاداش میں حملے کروا چکے ہیں، دھمکیاں سہ چکے ہیں لیکن آج بھی بڑے بڑے فرعون ان کے سوال کی قوت سے کانپتے ہیں۔مرتضی سولنگی جیسے تجربہ کار لوگ بے روزگار ہیں، بے روزگاری ان کی جمہوری سوچ کی راہ میں حائل نہیں ہے، وہ ڈٹ کر بات کرتے ہیں، کھل کر لکھتے ہیں۔ عنبر شمسی نے بھینسچ بولنے سے توبہ نہیں کی، انکو پروگرام سے بے دخل کر دیا گیا، وہ چاہتیں تو درباری ٹولے میں شامل ہو سکتیں تھیں مگر انھوں نے سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اب گھر بیٹھے اس کا نتیجہ بھی فخر سے بھگت رہی ہیں۔
عمار مسعود کے مطابق ریاستی جبر و ستم کی ان داستانوں کے بعد اس شہر کو اب شناخت مل گئی ہے۔ اگر کراچی روشنیوں کا شہر ہے، لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے، پشاور پھولوں کا شہر ہے تو اسلام آباد کی شناخت اس کے دلیر صحافی ہیں، تاریخ کی کتابوں میں یہ شہر اسی نام سے جانا جائے گا، اپنے صحافیوں کے بدن پر لگنے والے زخموں کے حوالے سے پہچانا جائے گا، ان کے بدن میں پیوست گولیوں کے حوالے سے اس کی شناخت ہو گی، ان کی بے روزگاری کے دنوں میں جدوجہد اس شہر کی پہچان ہو گی، جن کے الفاظ وقعت نہیں پاتے، جن پر حملے ہوتے ہیں، جن کو دھمکیاں ملتی ہیں، جن کو نوکری نہیں ملتی، جن کی تضحیک کی جاتی ہے، ان کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ہو گا۔

Back to top button