اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس، گرفتار خواتین وکلا کی ضمانت منظور

انسداد دہشت گردی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں گرفتار 2 خواتین وکلا کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
وکلا کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے کی۔عدالت نے بشریٰ سلیم اور شہلا بی بی کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔خیال رہے کہ گزشتہ روز وکلا کی جانب سے دائر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں مسترد ہونے پر پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔اے ٹی سی جج راجا جواد عباس حسن نے بشریٰ سلیم اور شہلا بی بی کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں 15 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔بعدازاں گرفتار وکلا کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے اپیل دائر کی گئی تھی جسے آج عدالت نے منظور کرلیا۔دوسری جانب ہائی کورٹ حملہ کیس میں مزید دو خواتین وکلا شائستہ تبسم اور معراج ترین نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا جس کے بعد انہیں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔دونوں خواتین وکلا کی جانب سے بھی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں دائر کردیں گئیں ہیں۔مذکورہ درخواستوں پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے سماعت کی اور پولیس کو نوٹسز جاری کردیے، ان درخواستوں پر مزید سماعت کل ہوگی۔خیال رہے کہ 7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں توڑ پھوڑ میں ملوث 17 وکلا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی جبکہ متعدد وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

Back to top button