افغان طالبان نے کامیڈین خاشہ کو کیوں قتل کیا؟


افغانستان کے معروف کامیڈین خاشہ زوان کو طالبان نے اغوا کے بعد صرف اس لیے قتل کردیا کہ وہ ان پر کڑی تنقید کرتا تھا۔ شروع میں تو افغان طالبان کے ترجمان نے اس بات کی تردید کردی تھی کہ خاشہ کا قتل ان کے لوگوں کے ہاتھوں ہوا ہے۔ تاہم خاشہ خان کی طالبان کے ہاتھوں گرفتاری اور تشدد کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد افغان طالبان نے تسلیم کیا ہے کہ کہ کامیڈین انہی کے لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ طالبان نے خاشہ کے قتل کی وجہ پتہ کرنے کے لئے تفتیش کا حکم دیا ہے حالانکہ شب جانتے ہیں کہ خاشہ کے قاتل کون ہیں اور اسے کیوں قتل کیا گیا۔
یاد رہے کہ چند روز پہلے ایک ویرانے سے نذر محمد عرف خاشہ زوان کی لاش ملی تھی۔ خاشہ کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ خاشہ کو گھر سے مسلح طالبان اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر ایک درخت کے پاس سے اس کی لاش ملی۔ بظاہر مقامی سطح پر یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ خاشہ کو طالبان نے گرفتاری کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے بعد سے افغان طالبان پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد افغان طالبان نے بھی اپنا موقف تبدیل کر دیا ہے۔
یاد رہے نذر محمد عرف خاشہ زوان، افغانستان کے شہر قندھار کے مزاحیہ اداکار تھے، جو اپنی طنزیہ ویڈیوز میں گالیوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے تھے۔افغانستان میں فنکاروں کو ہنر مند کہا جاتا ہے اور مزاحیہ اداکار جو طنزیہ باتیں کرے اسے ’ٹوک مار‘ یعنی جگتیں کرنے والا کہا جاتا ہے۔ نذر محمد عرف خاشہ بھی ایک طرح سے مزاحیہ فنکار بھی تھے اور جگتیں بھی لگایا کر تے تھے۔ مقامی صحافی اسد صمیم نے بتایا کہ نذر محمد عرف خاشہ زوان پہلے پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور وہاں بھی وہ فنکار ہی مشہور تھے۔ان کا مزاحیہ انداز مقامی سطح پر انتہائی پسند کیا جاتا تھا اور لوگ ان کی محفل میں بیٹھ کر خوب لطف اٹھاتے تھے۔ خاشہ زوان کی گرفتاری کے وقت بھی موقع پر موجود لوگ اپنی باتوں میں ہنستے ہوئے یہی کہہ رہے تھے کہ خاشہ گرفتار ہونے کے بعد بھی مذاق کر رہے ہیں۔ انھیں شاید معلوم نہیں تھا کہ آگے ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اسد صمیم نے بتایا کہ خاشہ کے قتل کے فوری بعد زیادہ رد عمل نہیں آیا تھا لیکن جب سے خاشہ کی گرفتاری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اس کے بعد سے اس قتل کی مذمت ہو رہی ہے۔
دوسری جانب قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ابتدا میں کہا کہ اس کے قتل میں طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن جب اس کی ویڈیو سامنے آئی اور اس میں خاشہ زوان مسلح طالبان کی حراست میں تھے تو سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ اس بارے میں افغان طالبان کے افغانستان میں موجود ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ خاشہ پولیس میں بھرتی تھے اور ان کی ایک تصویر میں خاشہ کے ساتھ کلاشنکوف پڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مزید تفتیش کی جا رہی ہے کہ خاشہ کو کس نے مارا ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کے ایک ترجمان قاری محمد یوسف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ خاشہ جو مذہبی رہنماؤں پر طنز کرتے تھے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغان طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان اپنی باتوں میں افغان طالبان پر تنقید کرتے تھے اور اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ افغانستان اور پاکستان میں سیاسی قائدین، صحافی اور فنکار اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔سینیئر صحافی طاہر خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ طالبان تبدیل نہیں ہوئے، اگر طالبان سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ افغانستان پر حکمرانی کریں گے تو یہ غلط ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے افغانستان کے سری لنکا میں سفیر اشرف حیدری کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان کے ہاتھوں معصوم افغان مزاحیہ فنکار خاشہ زوان کے ماورائے عدالت قتل سے قوم کے دل ٹوٹ گئے ہیں اور یہ کہ قوم طالبان اور ان کے معاونین کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Back to top button