افغان طالبان کے عروج، زوال اور عروج کی کہانی

1998 میں افغانستان کے نوے فیصد حصے پر قابض افغان طالبان سخت شرعی سزائوں کے نفاذ اور 2001 کے نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ قیادت کو پناہ دینے کی وجہ سے نیٹو اتحاد کے جوابی حملے کے باعث زوال کا شکار ہوئے رھے، تاہم دو دہائیوں کی جنگ کے باوجود طالبان کو ہرانے میں ناکامی کے بعد امریکہ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات شروع کئے اور یوں ستمبر 2021 میں افغانستان سے فوجی انخلاء کا معاہدہ کر لیا۔ اب جبکہ اس معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے تو افغان طالبان ملک کے بیشتر حصوں پر قابض ہو چکے ہیں جسے ایک بار پھر طالبان کے عروج سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور بین الاقوامی افواج کا افغانستان سے انخلا اب چند ہفتوں کی بات ہے تاہم دوسری جانب طالبان دو دہائیوں پر محیط جنگ کے بعد دوبارہ افغان فوج کی چوکیوں، قصبوں، بڑے شہروں سے متصل دیہاتوں اور صوبائی ہیڈ کوارٹرز کو قبضے میں لے رہے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ خطرہ بڑھ رہا ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر منتخب افغان حکومت گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔ طالبان سے یہ وعدہ بھی لیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرِانتظام علاقوں میں القاعدہ یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروہ کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اب جبکہ امریکہ افواج کی افغانستان سے واپسی کا عمل مکمل ہونے کو ہے تو طالبان سبک رفتاری سے ملک کے مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں۔
دراصل طالبان‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’طالبعلم‘ کے ہیں اور یہ سنہ 1990 کی دہائی میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے شمالی اضلاع میں طاقتور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر پشتون قومیت کے افراد پر مبنی اس تحریک نے مذہبی مدارس میں سر اٹھایا جنھیں سعودی عرب کی جانب سے امداد دی جاتی تھی اور جہاں سخت گیر سُنی اسلام پر مبنی نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ طالبان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جس بیانیے کا پرچار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقوں میں امن کی بحالی اور سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی اوراسلامی قانون یعنی ’شریعہ‘ کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا۔ جنوب مغربی افغانستان سے طالبان نے آہستہ آہستہ ملک کے بیشتر علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا اور ستمبر 1995 میں انھوں نے ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات پر باقاعدہ قبضہ کیا اور اس سے ایک برس بعد ہی انھوں نے افغان دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا اور سوویت یونین کو شکست دینے والے افغان مجاہدین کے بانیوں میں سے ایک برہان الدین ربانی کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ 1998 تک طالبان نے افغانستان کے 90 فیصد علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ افغان عوام نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد ’مجاہدین‘ کے اقدامات اور ان کے جانے کے بعد ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کو دیکھتے ہوئے طالبان کو خوش آمدید کہا۔ آغاز میں ان کی شہرت کی بڑی وجہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات، لاقانونیت کا خاتمہ اور علاقے میں سڑکوں کے قیام اور اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بہتر بنانا شامل تھا۔
تاہم طالبان نے اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا آغاز بھی کیا جیسے قتل کے مجرموں یا زنا کرنے والوں کو سرِ عام پھانسیاں اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ شامل تھی۔ مردوں کے لیے داڑھیاں رکھنا جبکہ خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ طالبان نے ٹیلی ویژن، موسیقی اور سینما پر بھی پابندی عائد کر دی اور 10 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی دی۔ لیکن عالمی دنیا کی توجہ صحیح معنوں میں طالبان پر تب پڑی جب نیویارک میں 9/11 کے حملے ہوئے۔طالبان پر ان حملوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔سات اکتوبر 2001 کو امریکہ کی سربراہی میں اتحادی ممالک کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت چند اہم اشخاص کی تلاش میں دنیا کی سب سے بڑی مہمات چلائی گئیں لیکن اسامہ بن لادن، طالبان کے رہنما ملا محمد عمر اور دیگر سینیئر رہنما بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔اکثر سینیئر طالبان کمانڈروں نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پناہ لی اور وہاں سے انھوں نے طالبان کو ہدایات دینا شروع کیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ’کوئٹہ شوریٰ‘ کی موجودگی پر لاعلمی کا اظہار کیا جاتا رہا۔
افغانستان میں غیرملکی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان نے آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول واپس لیا اور پھر اس میں اضافے کرتے چلے گئے۔ یوں ملک کے بیشتر علاقے غیر محفوظ ہو گئے اور ملک میں تشدد 2001 کی سطح تک جا پہنچا۔ 2013 میں مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی امیدیں کچھ دیر کے لیے تب بحال ہوئی تھیں جب طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا۔ تاہم دونوں اطراف موجود عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا رہا اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ اگست سنہ 2015 میں طالبان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انھوں نے ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھا جن کی وفات اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ اس سے اگلے مہینے گروپ کے مطابق اس نے اپنے ہی مختلف گروہوں کے درمیان ہفتوں پر محیط لڑائی کا خاتمہ کرتے ہوئے نیا رہنما چنا ہے یعنی ملا عمر کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے ملا منصور۔ اس دوران طالبان نے سنہ 2001 میں شکست کے بعد سے پہلی مرتبہ ایک سٹریٹیجک اہمیت رکھنے والے شہر قندوز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ملا منصور مئی 2016 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے اور ان کے متبادل کی حیثیت سے ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا اور وہ آج بھی گروپ کے سربراہ ہیں۔
فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک برس تک طالبان نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے شہروں اور فوجی چوکیوں پر حملے کرنے کی بجائے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا اور افغان سویلینز میں دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔ طالبان کے حملوں کا نشانہ بننے والوں میں صحافی، امن کو فروغ دینے والے سماجی کارکن اور طاقتور عہدوں پر فائز خواتین سے یہ پتا چلا کہ ان کے شدت پسند نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف ان کی حکمت عملی تبدیل ہوئی۔ افغان حکام کی جانب سے بین الاقوامی مدد کے بغیر طالبان کا مقابلہ نہ کر سکنے کے خدشات کے باوجود امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے اپریل 2021 میں اعلان کیا کہ تمام امریکی افواج افغانستان چھوڑ دیں گی۔ایک عالمی قوت کو دو دہائیوں تک اپنے اوپر حاوی نہ کرنے والے طالبان نے اب تیزی سے متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا ہے اور پھر سے یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ غیر ملکی افواج کی غیر موجودگی میں کابل میں حکومت گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ طالبان تعداد میں اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور نیٹو کے اندازے کے مطابق ان میں اب 85 ہزار جنگجو شامل ہیں۔ طالبان نے اب تک کتنے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے، یہ کہنا تو تاحال مشکل ہے کیونکہ اضلاع کا کنٹرول کبھی افغان فوج اور کبھی طالبان کے پاس ہوتا ہے تاہم حالیہ اندازوں کے مطابق یہ ملک کے تیسرے یا پانچویں حصے کے برابر ہے۔