افغان مہاجرین کی متوقع آمد: پاکستان کا ’ایرانی ماڈل‘ اپنانے کا امکان

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور طالبان مزید علاقوں میں کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، تاہم اس تناظر میں مہاجرین کی پاکستان آمد بھی ناگزیر ہے لیکن اس مرتبہ اسلام آباد افغان مہاجرین کے لیے اپنی سرحد کھولنے کے حق میں نہیں ہے اور اگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہوا تو پاکستان ’ایرانی ماڈل‘ کو زیر غور لائے گا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ ہم نے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن امدادی ادارے دوسری طرف سے بھی ضرورت مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن اگر صورتحال بگڑتی ہے تو ہم اپنی سرزمین میں پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے سخت کنٹرول اور نگرانی کے ساتھ سرحد کے ساتھ بستیاں قائم کریں گے’۔

شیخ رشید نے مزید کہا کہ حکومت ان کیمپوں میں مہاجرین پر قابو پانے اور ان کا موثر انتظام کرنے کے لیے ایرانی ماڈل کی بھی پیروی کرے گی۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں 8 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے، وہ سب 1980 کے دہائی میں ایرانی سرحدی علاقوں میں قائم گاؤں میں رہ رہے تھے اور انہیں شہروں اور قصبوں میں آباد ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

دوسری جانب ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے تصدیق کی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کی شام ایرانی صدر منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔

وزیر اعظم نے صدارتی انتخاب میں کامیابی پر ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے افغانستان میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس کے منفی نتائج پاکستان اور ایران دونوں ہی ممالک کے لیے یکساں ہوں گے۔

عہدیدار نے بتایا کہ افغانستان سے متعلق اپنی گفتگو کے دوران دونوں فریقین نے ایرانی ماڈل پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزارت داخلہ، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی ٹیم، ماڈل کے کامیاب نفاذ کو سمجھنے کے لیے جلد ہی ایران کا دورہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ بیشتر سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے جس سے غیر قانونی نقل و حرکت مشکل ہوگئی ہے۔

دوسری جانب چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین سلیم خان نے کہا کہ فی الحال سرحد پر صورتحال تشویشناک نہیں ہے، لیکن صورتحال خراب ہوئی تو بین الاقوامی تنظیمیں اور ڈونر ایجنسیاں اسلام آباد کو آگاہ کریں گی۔

سلیم خان نے کہا کہ اگرچہ پاکستان، اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کنونشن 1951 اور 1967 کے پروٹوکول پر دستخط کنندہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود یہ ملک 4 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ ایک قابل تحسین کامیابی ہے کہ پاکستان میں مقامی اور افغان مہاجرین کے مابین کوئی تناؤ نہیں رہا ہے۔

چیف کمشنر نے کہا کہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں تمام مہاجرین کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑی بھی موجود ہیں جنہوں نے مختلف کھیلوں کی اکیڈمیوں اور مراکز میں کھیل سیکھا۔

مختلف صوبوں اور یہاں تک کہ گلگت بلتستان کے عہدیداروں نے اپنے علاقوں میں افغان مہاجرین کی آمد پر اپنی تشویش ظاہر کی۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے ایک رکن نے کہا کہ افغان مہاجرین سے جُڑا سب سے بڑا مسئلہ افغان فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے جنہیں فوج نے ختم کردیا تھا۔

Back to top button