افغان میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کیطرف کیوں کر لیا؟


افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے دوران طالبان کی جانب سے افغانستان کے مختلف حصوں پر قبضوں کے بعد افغان میڈیا کا پاکستان کے حوالے سے رویہ انتہائی ناقدانہ ہو چکا ہے اور وہ طالبان کی بڑھتی ہوئی فوجی پیش قدمی کو پاکستان کے مرہون منت قرار دے رہا ہے۔ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان دن بہ دن مضبوط ہو رہے ہیں اور افغان میڈیا ان کی مبینہ حمایت کا الزام پاکستان پر عائد کر رہا ہے۔
تقریبا پچھلے ایک ماہ سے افغانستان میں بیشتر ذرائع ابلاغ ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا الزام اسلام آباد پر عائد کر رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان کی پشت پناہی اور عسکریت پسندوں کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ تاہم دوسری جانب پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اب طالبان اسلام آباد سے آپریٹ نہیں ہوتے بلکہ وہ مکمل طور پر آزاد ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ کوئی نئے الزامات نہیں ہیں۔ افغان حکام ماضی میں بھی کہتے آئے ہیں کہ پاکستان طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ لیکن ان دنوں افغان میڈیا کا سب سے بڑا موضوع ہی پاکستان کی طالبان کو مبینہ مدد بنی ہوئی ہے۔ ایک افغان رکن پارلیمان عبدالستار حسینی نے ایک ٹاک شو میں الزام لگایا یے کہ دراصل پاکستان ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ افغان طالبان نہیں ہیں، جن سے ہم جنگ کر رہے ہیں، ہمیں پاکستان کی پراکسی جنگ کا سامنا ہے۔‘‘ عبدالستار حسینی کا مزید کہنا تھا، ”طالبان کا افغانستان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے اور ہم پاکستان کا منصوبہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘
دوسری جانب پاکستان بار بار ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن بہت سے افغان پاکستان کے اس سرکاری موقف پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستانی حکام کے لیے اس بیانیے کو تبدیل اور افغان میڈیا کو راضی کرنا ایک مشکل کام بنتا جا رہا ہے۔
کابل کے اریانا نیوز ٹی وی چینل کے سربراہ شریف حسن یار کا اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”افغانستان اور پاکستان کے تعلقات چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے تناؤ کا شکار ہیں۔ بڑے شہروں میں بسنے والے زیادہ تر افغانوں کا پاکستان کے بارے میں منفی نظریہ ہے کیونکہ انہیں یاد ہے کہ 1990 کی دہائی میں اسلام آباد نے طالبان اور مجاہدین کی حمایت کی تھی۔‘‘
سابق صدارتی ترجمان نجیب اللہ آزاد کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے بارے میں تاثر حقیقت پر مبنی ہے، ”افغان ماہرین جو الزامات عائد کر رہے ہیں، ان میں سے کئی تو پاکستانی حکام نے خود قبول بھی کیے ہیں۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے خود تسلیم کیا تھا کہ اسلام آباد طالبان کی حمایت کر رہا تھا۔ سن دو ہزار پندرہ میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے، جب وہ اپوزیشن میں تھے، ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے ہسپتال میں زخمی طالبان کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ آزاد کا مزید کہنا تھا، ”حال ہی میں پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اعتراف کیا تھا کہ طالبان ممبران کے اہل خانہ پاکستان میں رہ رہے ہیں اور زخمی اور ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کو افغانستان سے پاکستان لایا گیا تھا۔‘‘
ان حالات میں نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد اور طالبان کی پیش قدمی سے افغانستان میں خانہ جنگی کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں انتشار کی صورتحال ”پڑوسی ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ افغانستان کا خاتمہ ہو گا۔‘‘ احمد رشید کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستانی فوج اور اسکے انٹیلیجنس ادارے طالبان کو جائے امان فراہم کرتے رہیں گے، وہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بات چیت میں شریک نہیں ہوں گے۔‘‘
موجودہ صورتحال میں جنگ کی لکیریں کھینچی جا چکی ہیں اور نئے اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ہی میڈیا کی جنگ بھی زوروں پر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک جغرافیائی اور ثقافتی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور افغانستان میں شورش پاکستان میں بھی پھیل سکتی ہے۔ اریانا نیوز ٹی وی چینل کے سربراہ شریف حسن یار کا کہنا تھا، ”سول سوسائٹی کے ممبران اور دونوں ممالک کے صحافیوں نے اعتماد کو بڑھانے کے لیے کوششیں کیں لیکن یہ دراصل حکومتوں کا کام ہے۔‘‘ پاکستان مخالف میڈیا بیانیے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”افغان میڈیا اکثر تبصروں کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرتا ہے لیکن پاکستانی سفارت کار جواب نہیں دیتے۔‘‘ نجیب اللہ آزاد کے مطابق پاکستان موجودہ صورتحال کا مقابلہ سفارتی طریقے سے کرنا چاہ رہا ہے، ”پچھلے کچھ مہینوں میں اعلیٰ افغان عہدیداروں نے پاکستان کے دورے کیے لیکن زمینی صورتحال بالکل بھی نہیں بدلی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنا تشخص بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو عسکریت پسندوں کی پشت پناہی روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری جانب اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ جب تک کابل پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے باز نہیں آتا، تب تک دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلیم گیم سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں بلکہ اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔

Back to top button