الیکشن میں نون لیگ کن سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملانے والی ہے؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان پر پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، نون لیگ کی طرف سے ایک جانب جہاں چھوٹی سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں وہیں دوسری طرف شمولیتوں کے محاذ پر بھی مسلم لیگ نون سب سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کی جانب سے ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کے بعد ہم خیال جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کرنے کی کاوشیں جاری ہیں جبکہ بلوچستان میں الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی نون لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ نون لیگی حلقوں کے مطابق ملک بھر میں مختلف جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں سے معاملات طے پا چکے ہین جلد نون لیگ میں بڑی شمولیتیں اور اتحاد دیکھنے کو ملیں گے۔ نون لیگ کو پہلے پنجاب تک محدود کر دیا گیا تھا لیکن اب نون لیگ تمام صوبوں میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔‘
بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ ایک بار پھر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے جہاں حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے والی کئی اہم شخصیات اب پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب بڑھ رہی ہیں جس کے بعد مسلم لیگ (ن) پر نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ ماضی قریب کے کچھ اتحادیوں کی طرف سے ’کنگز ’ پارٹی ہونے کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں جام کمال کی مخلوط حکومت کے سابق وزیر میر سلیم احمد کھوسو کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے چند مہینوں بعد ہی واپسی کچھ لوگوں کی بڑھتی توقعات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں آئندہ بننے والی صوبائی حکومت کی قیادت کرسکتی ہے۔ان سیاسی توقعات کو گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی سے تقویت ملی جبکہ بہت سے لوگوں نے ان کی پارٹی میں شمولیت کے سلسلے کو مقدمات میں ریلیف اور تین بار کے وزیر اعظم کے لیے دیگر مثبت پیش رفت سے منسوب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق: ’سیاسی تاریخ پر غور کیا جائے تو ایم کیو ایم اور بلوچستان کے الیکٹ ایبل جس پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں وہی اسلام آباد پر حکمرانی کرتی ہے۔ لیکن ابھی سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ تاہم ن لیگ کو کنگز پارٹی کا تاثر ضرور ختم کرنا پڑے گا۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ان دنوں بلوچستان میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ نون لیگی رہنماعظمی بخاری کے مطابق ’سردار آیاز صادق بلوچستان کے الیکٹ ایبلز اور باپ پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے گئے تھے اور واپس آکر نواز شریف کو رپورٹ پیش کر دی ہے۔ لشکری رئیسانی سے بھی میاں شہباز شریف کی لاہور میں ملاقات ہو چکی ہے۔ ’تمام معاملات طے پاچکے ہیں باپ پارٹی ن لیگ سے سیاسی اتحاد جبکہ کئی سابق ایم این ایز اور ایم پیز ن لیگ میں شمولیت کے لیے تیار ہیں۔ وہ ن لیگ کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر باقاعدہ اعلان کرنے کو تیار ہیں۔‘عظمی بخاری کے بقول: ’گذشتہ کئی سال سے ن لیگ کو پنجاب تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ہم تمام صوبوں میں اپنی ماضی میں موجود حمایت کو بحال کر رہے ہیں۔ سب دیکھیں گے کہ کتنی جماعتیں اتحاد اور کئی رہنما شمولیت کو تیار ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک بھر سے ن لیگ ہی ن لیگ نظر آئے گی۔‘انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں بھی ن لیگ کے رہنماوں کو دباؤ ڈال کر دیگر جماعتوں میں شامل کرایا گیا لیکن اب وہ واپس اپنی اصل جماعت میں واپس آرہے ہیں۔‘
دوسری جانب باپ پارٹی کے رہنما سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے بھی تصدیق کی ہے کہ ’میاں نواز شریف سے معاملات طے پا چکے ہیں۔ وہ شہباز شریف، مریم نواز، آیاز صادق سمیت دیگر رہنماوں کے ہمراہ ہماری دعوت پر 14 نومبر کو کوئٹہ آرہے ہیں۔ ہم نے ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا ہے۔’اس تقریب میں باپ پارٹی نہ صرف ن لیگ سے سیاسی اتحاد کا اعلان کرے گی بلکہ مجھ سمیت 18 سے زیادہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نون لیگ میں شمولیت کا باقائدہ اعلان کریں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں سب سے زیادہ سیاسی رہنما ن لیگ سے حمایت کو تیار ہیں اور جمعیت علما اسلام کے حامی بھی موجود ہیں۔ لہذا ہمیں یقین ہے کہ بلوچستان میں آئندہ صوبائی حکومت ن لیگ اور جے یو آئی اتحادیوں کے ساتھ مل کر بنائیں گے۔‘عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ ’ہمارے کئی اراکین ایسے ہیں جو پہلے مسلم لیگ ن میں تھے لیکن 2018 کے الیکشن میں انہیں باپ پارٹی کا حصہ بننا پڑا اب دوبارہ اپنی حقیقی جماعت میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔‘
مسلم لیگ ن، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب میں سب سے زیادہ بر سراقتدار اور کئی بار وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت ہے، ایک مرتبہ پھر سیاسی میدان میں متحرک دکھائی دیتی ہے۔پہلے ایم کیو ایم سے سیاسی اتحاد کر کے سندھ میں پاؤں جمانے کی کوشش کی اور اب اندرون سندھ شہرت رکھنے والی مسلم لیگ فنکشنل سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’ن لیگ نے اس سے قبل پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اتنی توجہ نہیں دی تھی نہ ہی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا نواز شریف ہر طرف سیاسی حمایت کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔سلمان غنی کے بقول، ’پاکستان میں جب اسلام آباد اور راولپنڈی مل کر کوشش کریں تو اسلام آباد میں اسی کی حکومت بنتی ہے جس جماعت کو ایم کیو ایم اور باپ جیسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی فی الحال تو مشکل میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن حتمی طور پر سیاست میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں، جبکہ ن لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کے ن لیگ سے اتحاد سے پیپلز پارٹی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان جماعتوں کے ساتھ اندرون سندھ مولانا فضل الرحمن کی حمایت بھی کافی زیادہ موجود ہے۔ وہ بھی اگر ن لیگ کے ساتھ سندھ میں اتحادی بن گئے، تو پی پی پی کے لیے وہاں حالات ساز گار نہیں ہوں گے۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’اس ساری صورت حال میں ن لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ عوامی طور پر جمہوریت کے بجائے کنگز پارٹی ہونے کا تاثر کیسے زائل کریں گے؟‘
تاہم ن لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کے مطابق ’ہم پر کسی ادارے کا پسندیدہ ہونے کا الزام درست نہیں۔کیا ہر بار ن لیگ کے لیے مشکلات کا ہی مطلب ہے کہ ہمیں کسی ادارے کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس بار اگر ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملا تو اعتراض کیوں ہے؟ ہمیشہ مشکلات کا سامنا بھی ہم نے ہی کیا ہے۔‘