ایرانی تیل کی بندش سے بلوچستان میں لاکھوں بے روزگار

https://youtu.be/l8IViH5g0zU
پاکستان اور ایران کی سرحد پر سختیاں بڑھنے سے بلوچستان میں سمگل شدہ ایرانی تیل کے کاروبار سے وابستہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں اور انکے خاندان فاقے کاٹنے پر مجبور ہیں۔ ایران سے بلوچستان پہنچنے والے سمگل شدہ تیل کی مصنوعات صوبے کی صنعت، زراعت، ماہی گیری اور دوسرے شعبوں کی تیل کی ضرویات کو پورا کر رہی تھیں۔ تاہم اب بلوچستان میں تیل کی ضروریات پوری کرنا بحرانی کیفیت سے دوچار ہے جسکا اعتراف وزیراعلی جام کمال بھی ہر رہے ہیں ۔
جہاں ایرانی تیل کی پاکستان سمگلنگ پر پابندیاں لگنے سے لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے وہیں بلوچستان کے نصف سے زائد علاقوں میں تیل کے بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کیونکہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے ان علاقوں میں پاکستانی تیل کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہمی کی سہولت موجود ہی نہیں ہے۔ بلوچسستان میں گذشتہ چھ ماہ سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مستونگ سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ نبی بخش کے معاش کا انحصار بھی ایرانی تیل پر ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور ہیں۔ چار سال پہلے تک وہ کسی اور کا ٹرک چلا رہے تھے۔ لیکن گھریلو مسائل کی وجہ سے جب گھر سے دور رہنا مشکل ہو گیا تو انھوں نے ایرانی تیل لانے کے لیے اپنی گاڑی خرید لی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی اور کبھی کبھار ضلع واشک سے تیل لا کر اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ بلوچستان میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگوں کے معاش کے فطری ذرائع بھی متاثر ہوئے ہیں۔جب گذشتہ سال حکومت بلوچستان کی جانب سے ایرانی تیل کی سمگلنگ پر سختی کی گئی تو بلوچستان بے روزگار ایسوسی ایشن کے چیئرمین شاہنواز بلوچ کی قیادت میں اس کے خلاف مستونگ کی جانب سے کوئٹہ کے لیے ایک لانگ مارچ کیا گیا۔ تاہم مذاکرات کے نتیجے میں لانگ مارچ کو راستے میں ہی ختم کیا گیا۔ شاہنواز نے کہا کہ صرف ضلع مستونگ میں ان کی تنظیم کے ساتھ 25 ہزار سے زائد ایسی گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جو کہ سرحدی علاقوں سے مستونگ تیل لاتی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ مستونگ کے بعد یہ تیل کوئٹہ سے ژوب اور مستونگ سے جنوب میں قلات، سوراب، خضدار اور لسبیلہ تک جاتا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مستونگ اور یہاں سے جن علاقوں میں ایرانی تیل جاتا تھا اس کی بندش سے ان علاقوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد کا معاش اور روزگار متاثر ہوا ہے اور اگر ایرانی تیل بند رہا تو بلوچستان میں بے روزگاری کا مسئلہ مزید سنگین ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ایران سے پانچ اضلاع کی سرحدیں ملتی ہیں جن میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔ پنجگور میں تیل کے کاروبار سے وابستہ انیس احمد بلوچ نے بتایا کہ ان علاقوں کا ایندھن کے لیے ’سو فیصد انحصار ایرانی تیل پر ہے کیونکہ گوادر یا کیچ میں پاکستان سٹیٹ آئل کے ایک دو سٹیشنز کے علاوہ کوئی اور پمپ نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں گذشتہ چند سال سے نہیں بلکہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہم کرنے کی کوئی سہولت نہیں۔’ پنجگور اور واشک کے علاقے ناگ میں ہمارے اپنے پی ایس او کے دو پمپ تھے لیکن پندرہ، بیس سال میں ان کو کمپنی کی جانب سے تیل فراہم نہیں کیا گیا۔’ انیس احمد کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان سرحدی اضلاع میں لوگوں کا تیل کے لیے انحصار ایران پر ہے بلکہ بہت ساری اشیائے خورد و نوش بھی وہاں سے آتی ہیں۔ ‘ان علاقوں میں نہ کوئی کارخانہ لگایا گیا ہے اور نہ ہی معاش اور روزگار کے دوسرے ذرائع ہیں اس لیے لوگوں کے روزگار اور معاش کا انحصار بھی ایرانی اشیا بالخصوص ایرانی تیل پر ہے۔‘
اب پاکستانی حکام کی جانب سے ایرانی سرحد پر آمد و رفت کے اکثر راستوں کو بند کرنے اور ایک دو راستوں سے ٹوکن نظام رائج کرنے سے سرحدی علاقوں میں بھی تیل کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ انیس احمد نے بتایا ایرانی تیل کی بندش سے نہ صرف ان اضلاع میں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے بلکہ ان کی طرح بلوچستان کے پورے تین ڈویژن رخشاں، مکران اور قلات میں لوگوں کو تیل کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پنجگور ایران کے ساتھ ہے لیکن پابندیوں کی وجہ سے قلت کے باعث ایرانی تیل کی قیمت 150 روپے سے اوپر تک پہنچ گئی۔ اس سے قبل یہی تیل 75 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا۔’
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایرانی تیل کے بغیر بلوچستان میں لوگوں کا گزارا ممکن ہو گا۔ جب یہ سوال بلوچستان اسمبلی کے رکن اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا بلوچ سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ ممکن نہیں۔‘ثنا بلوچ کا تعلق خاران سے ہے جو کہ رخشاں ڈویژن کے ایران سے متصل سرحدی ضلع واشک سے جڑا ہے۔ ثنا بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صرف لوگوں کے سفر کا انحصار ایرانی تیل پر نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں زراعت، مائننگ، ماہی گیری اور کاروبار کے دیگر شعبوں کا انحصار بھی ایرانی تیل ہی پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمپنیاں جس قیمت پر تیل فراہم کر رہی ہیں غربت کی لکیر سے زندگی نیچے زندگی گزارنے والے بلوچستان کے لوگوں کا کاروبار اس پر چل نہیں سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی تیل کو بند کرنے کی غلطی کی گئی تو نتیجے میں غربت اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو گا۔ایرانی تیل کی بندش کے اقدامات سے نہ صرف بلوچستان میں لوگوں میں پریشانی ہے بلکہ خود بلوچستان میں حکومتی سطح پر بھی پریشانی پائی جاتی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے جب میڈیا کے نے ایرانی تیل پر پابندی سے متعلق سوال پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ‘وفاق کا یہ اعلان بڑا اچھا ہے کہ ایرانی تیل بند کر دیا گیا ہے لیکن یاد رہے بلوچستان کے تین ڈویژن میں سے رخشاں، مکران اور آدھے قلات ڈویژن میں ملکی کمپنیوں کا ایک پیٹرول پمپ بھی نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ متبادل کے بغیر تیل بند کرنے سے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، میں، آپ، ٹرک اور بس تیل کہاں سے لائیں گے۔’پہلے ایک متبادل لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان علاقوں میں ایرانی تیل نہیں ہو گا تو پولیس کا ایس پی گشت کرنا بند کر دے گا کیونکہ ان کی گاڑی پانی سے تو نہیں چلے گی۔ انھوں نے استفسار کیا کہ اگر یہ تیل نہیں ہو گا تو مچھیروں کی کشتیاں، کاشتکاروں کے ڈیزل انجن کیسے چلیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کچھ چیزیں ٹھیک ہوتی ہیں اور کچھ غلط ہوتی ہیں۔ لیکن متبادل کا انتظام کریں پھر آپ آہستہ آہستہ بند کرنے کی جانب جائیں۔