الیکٹیبلز دھڑا دھڑ نون لیگ میں شامل کیوں ہونے لگے؟

پاکستان جیسے جیسے عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین نئی صف بندی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ایک طرف پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے سیاسی دوروں پر نکل ہوئے ہیں تو دوسری جانب نواز شریف کی واپسی کے بعد لیگی قیادت بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور الیکٹیبلز کو اپنے ہمنوا بنانے میں متحرک دکھائی دے رہی ہے۔نواز شریف کی واپسی کے بعد ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔ نون لیگ کا پہلا فوکس بلوچستان اور سندھ کے صوبے دکھائی دے رہے ہیں۔
نواز شریف بلوچستان کا دورہ کر رہے ہیں جہاں شنید ہے ’الیکٹیبلز‘ کی بڑی تعداد مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کرے گی۔گذشتہ چند دنوں میں پنجاب کے متعدد ’الیکٹیبلز‘ نے بھی مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ہے جن میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے اجمل چانڈیا، اسی طرح جنوبی پنجاب سے ہی سردار منصب ڈوگر اور سینٹرل پنجاب سے نظام الدین سیالوی اور آصف بھا جیسے ہیوی ویٹ امیدوار شامل ہیں۔
نون لیگ میں الیکٹیبلز کی مسلسل شمولیت کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ اچانک الیکٹیبلز کی سیاست کی طرف کیوں چل پڑی ہے؟ اس سوال کا جواب پارٹی کے ہی ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دیا کہ ’نواز شریف کی واپسی کے بعد بڑے پیمانے پر صلاح مشورے ہوئے ہیں اور پارٹی نے ایک خفیہ سروے بھی کروایا ہے جس میں پنجاب کی کم از کم 90 سیٹوں پر ہماری جیت یقینی ہے ۔ تاہم نواز شریف چاہتے ہیں کہ پارٹی دو تہائی اکثریت کے لیے کوشش کرے۔‘پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل 148 سیٹیں ہیں جبکہ لیگی رہنما کے مطابق پارٹی کو کم از کم 120 سیٹیں لینے کا ہدف دیا گیا ہے۔ ’اس حوالے سے ہر اس شخص سے رابطہ کیا جا رہا ہے جس کے اپنے علاقے میں ووٹ ہیں اور اثررسوخ ہے۔ ابھی تو کچھ بھی لوگ شامل نہیں ہوئے آنے والے دنوں میں آپ کو ایک لائن نظر آئے گی کہ لوگ دھڑا دھڑ مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر رہے ہوں گے۔‘
تاہم دوسری جانب ن لیگی رہنما عطا اللہ تارڑ کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں جن لوگوں کو مسلم لیگ ن سے زبردستی علیحدہ کیا گیا اگر وہ واپس آ رہے ہیں تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔’آپ کو یاد نہیں ہے کیسے ہمارے لوگوں کو الیکشن کے دن تک ہراساں کیا گیا اور پارٹیاں چھڑوائی گئیں۔ اب جب کہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ مسلم لیگ ن ہی وہ واحد جماعت ہے جو اس ملک کے معاشی مسائل کو حل کر سکتی ہے تو یقینی طور پر لوگ ہماری جاعت کی ٹکٹ لینا چاہتے ہیں اور ہم ان کو ویلکم کر رہے ہیں۔‘
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکٹیبلز مسلم لیگ ن کو اقتدار دلانے میں کس حد تک معاونت کر پائیں گے؟ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ الیکٹیبلز سے بہت زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ دو تہائی کا تو کوئی پارٹی سوچے بھی نا۔ ’جو پاکستان کے حالات ہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی اس میں کسی بھی جماعت کا دو تہائی اکثریت لینے کی بات کرنا ایک عجیب بات ہے۔ مسلم لیگ ن کی مشکلات تو اس حوالے سے ویسے ہی زیادہ ہیں۔ 16 ماہ کی حکومت کا ملبہ بھی ان کے سر پر ہے اور عوام کو اس الیکشن میں کوئی دلچسپی ہی دکھائی نہیں دے رہی۔ کیونکہ ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کوئی جماعت سادہ اکثریت ہی لے گئی خاص طور پر مسلم لیگ ن تو یہ ان حالات میں ان کی تاریخی فتح ہو گی۔‘
سلمان غنی نے الیکٹیبلز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے سیاسی نظام میں الیکٹیبلز کس کی ایما پر کس جماعت میں جاتے ہیں اس کا میرے سے بہتر آپ کو پتا ہو گا۔ جیسے ایم کیو ایم ، باپ پارٹی، فنکشنل اور جی ڈی اے کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف ہو گیا ہے اس کا مطلب صاف ہے کہ اقتدار کی ہوا اس طرف کو چل رہی ہے۔‘
’پہلے بھی یہی ہوا، پچھلے الیکشن میں ہوا تحریک انصاف کی چلی تھی۔ یہ چند الیکٹیبلزملا کر اور چھوٹی جماعتوں کو ملا کر شاید مسلم لیگ ن حکومت بنا لے مجھے تو الیکشن کے بعد کا منظرنامہ ایسا ہی دکھ رہا ہے۔‘