انٹر کے امتحانات کو مؤخر کرنے کی مسلم لیگ (ن) کی تجویز مسترد

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں نے انٹرمیڈیٹ طلبہ کے امتحانات کے ایک مختصر نوٹس پر آغاز کے حکومتی فیصلے پر ملک کے مختلف حصون میں جاری احتجاج کا معاملہ اٹھایا۔
حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امتحانات کو مؤخر کریں تاکہ انہیں تیاری کے لیے مزید وقت مل سکے۔

لیکن حکومت نے اپوزیشن کی تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک یا دو دن میں امتحانات شروع ہونے والے ہیں اور بلوچستان میں طلبہ پہلے ہی امتحانات میں شریک ہوچکے ہیں جبکہ سندھ میں امتحانات ختم ہونے ہی والے ہیں۔

اس کے علاوہ پارلیمانی سیکریٹری برائے اعلی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجیہہ قمر جو وزیر کی عدم موجودگی میں اس موضوع پر مسلم لیگ (ن) کے ممبران کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دے رہی تھیں، نے کہا کہ طلبہ کو امتحانات کی تیاریوں کے لیے کافی وقت مل گیا ہے اور نصاب اور مضامین میں کمی کی صورت میں متعلقہ بورڈز کے ذریعے مزید سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے ممبران کے مستقل اور پرزور اصرار پر اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے آخر کار مداخلت کی اور کہا کہ وہ خود وفاقی وزیر اعلی تعلیم شفقت محمود کے سامنے یہ معاملہ اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی وزیر سے ایک کانفرنس کال کے ذریعے بات کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وزیر کچھ سرکاری مصروفیات کے سلسلے میں گلگت بلتستان میں ہیں اور معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔

اسپیکر نے مسلم لیگ (ن) کے ممبران کے مطالبے کے باوجود اس معاملے پر کوئی فیصلہ دینے سے انکار کیا تاہم پارلیمانی سیکریٹری کو اپوزیشن ممبران سے مشورہ کرنے اور امتحانات میں کم از کم 45 دن کی تاخیر کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کو کہا۔

نارووال سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کی طرف سے امتحانات میں تاخیر کی تجویز پیش کی گئی تھی جن کا کہنا تھا کہ طلبہ ذہنی طور پر پریشان ہیں کہ حکومت نے بغیر نصاب کی تکمیل کے ان کے امتحانات کا فیصلہ کیا ہے۔

احسن اقبال نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک دیہی علاقے سے ہے جہاں طلبہ کے پاس آن لائن کلاسز کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں۔

ان کا خیال تھا کہ حکومت کی توجہ صرف بڑے شہروں میں رہنے والے بچوں پر ہے جبکہ متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لاکھوں نوجوان ذہنی دباؤ میں ہیں اور خودکشیاں کر رہے ہیں‘۔

احسن اقبال نے تجویز دی کہ امتحانات 45 دن کے لیے موخر کیے جائیں اور ان دنوں میں طلبہ کو کلاسز میں شرکت کے لیے بلایا جائے اور نصاب مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کو 85 فیصد تک ترجیح اور میٹرک کے نتائج کو 15 فیصد ترجیح دی جانی چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ چونکہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے لہذا اسپیکر کو اپنے چیمبر میں اس معاملے پر اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

پارلیمانی سیکریٹری نے جواب دیا کہ جو طلبہ جولائی میں امتحانات نہیں دینا چاہتے وہ ستمبر یا اکتوبر میں ہونے والے ضمنی امٹحانات میں پیش ہوسکتے ہیں جس پر مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’میں آپ سے اپیل کرتا ہوں اور آپ سے منت کرتا ہوں، براہ کرم انہیں (طلبہ) کو کچھ وقت دیں اور امتحانات نہ لیں‘۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ’کلاسز کا بندوبست کرو، نصاب مکمل کیے بغیر امتحانات لینے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے‘۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور ایم این اے ڈاکٹر درشن نے اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے اسپیکر کے تحت پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے حکومت سے حالیہ مظاہروں کے دوران گرفتار طلبہ کو فوری طور پر رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ممبران کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وجیہہ قمر نے دعویٰ کیا کہ ان مٹھی بھر احتجاج کرنے والے طلبہ کو تمام طلبہ کا نمائندہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ان میں سے اکثریت امتحانات میں شرکت کے لیے راضی ہیں۔

پارلیمانی سیکریٹری نے بتایا کہ طلبہ کو رول نمبر سلپس پہلے ہی جاری کردی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ تمام صوبائی وزرا برائے تعلیم نے بورڈز، ہائر ایجوکیشن کمیشن، یونیورسٹیوں اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی مشاورت سے لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کالجز اور یونیورسٹیاں طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اپنے داخلے کے عمل میں تاخیر کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔

دہشت گردی میں اضافہ
ایک نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سابقہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے الزام لگایا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی ایک بار پھر بڑھ رہی ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ عام ہوتی جارہی ہے۔

انہوں نے حکومت کو صورتحال پر فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پورا ملک دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کچھ گڑبڑ کی توقع کر رہا ہے تاہم قومی ادارے اور مسلح افواج اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک اس وقت ختم ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی کی نسیبہ چنہ نے ایوان میں کورم کی نشاندہی کی۔

Back to top button