آن لائن رشتہ ایپس ’’ڈیٹنگ‘‘ کو فروغ کیوں دینے لگیں؟

پاکستانی معاشرے میں رشتہ ڈھونڈنا کسی جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے، لڑکے اور لڑکی کو رشتہ کروانے والے افراد کے کٹھن سوالات کا سامنا کرنے کے ساتھ رشتہ دیکھنے آنے والوں کے رویوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا بہترین نعم البدل آن لائن رشتہ ایپس ہیں لیکن یہ ایپس اب ڈیٹنگ ایپس میں تبدیل ہونے لگی ہیں، ایپس کے ذریعے لڑکا اور لڑکی ملاقات کرتے ہیں، دل چاہا تو ساتھ وقت گزارتے ہیں، حیران کن طور پر ان میں زیادہ تر تعداد شادی شدہ مرد و خواتین کی ہوتی ہے۔رشتہ ایپس کے 100 فیصد مصدقہ پروفائلز محض دعوٰی ہی ہیں کیونکہ ان ایپس پر ایک بڑی تعداد پہلے سے شادی شدہ مرد و خواتین کی بھی ہے جن کا مقصد صرف تفریح ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آن لائن رشتہ ایپس پر موجود تمام سنجیدہ افراد نے معاشرے کے روایتی رشتہ کلچر سے تنگ آکر ان آن لائن رشتہ ایپس کا سہارا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان اس روایتی رشتہ کلچر سے سخت مایوس ہیں اور آن لائن رشتہ ایپس کے رجحان میں غیر معمولی اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی نوجوان طبقہ کی یہی مایوسی ہے۔’موز میچ‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر شہزاد یونس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس آن لائن ایپ کو متعارف کروانے کا مقصد نئی مسلمان نسل جو شریک حیات کی تلاش کے ثقافتی اور روایتی طریقوں سے دور ہو کر مغرب کی روایات کو اپنا رہے ہیں، ان کو سیدھے راستے پر ڈالنا ہے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے 32سالہ محمد سہیل جو ایک مارکیٹنگ کمپنی کے منیجر ہیں، نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ 1 برس سے ’موز میچ‘ استعمال کر رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موز میچ پر اپنی پروفائل بنانے کے لیے آپ کے شناختی کارڈ کا اندراج ضروری ہے اور آپ فیک تصویر کا استعمال بھی نہیں کر سکتے، البتہ اپنے متعلق جعلی معلومات ضرور ڈال سکتے ہیں، جس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ تمام آن لائن رشتہ ایپس صرف اور صرف ڈیٹینگ ایپس ہیں۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے آن لائن رشتہ آرگنائزیشن ایپ کی منیجنگ ڈائریکٹر مسز علی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن رشتہ ایپس دراصل ڈیٹنگ ایپس کی طرح ہی ہیں اور جہاں تک رشتہ کی بات ہے تو وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ دوسری جانب آپ کو کیسا شخص ملے گا۔انعم (فرضی نام) 28 برس کی ہیں، جنہیں آن لائن رشتہ ایپس کی وجہ سے بلیک میلنگ اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ 2 سالوں سے ان کے گھر والے رشتے کی تلاش میں تھے اور تقریباً ہر ہفتے انہیں کوئی فیملی دیکھنے آیا کرتی تھی اور ہر کسی کا سامنا کرنے پر ان کی ذہنی حالت بہت متاثر ہو رہی تھی۔انعم کہتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار رشتہ ایپ کے ذریعے لڑکے سے ملنے گئیں تو بظاہر انہیں وہ لڑکا اچھا لگا اور پھر ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں پہلے ایک دوسرے کو جان لینا چاہئے اور یوں دو بار ملاقات ہوئی، لیکن جب تیسری بار ملنے گئی تو اس نے مجھ سے جنسی تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کی جس پر میں نے اس سے خوب لڑائی کی اور کہا کہ نکاح کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے چونکہ وہ جانتا تھا کہ میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جہاں کسی لڑکے کے ساتھ تصاویر دیکھنا قیامت سے کم نہ ہو گا اور اس نے مجھے اسی بنیاد پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔انعم کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک نہایت ہی گرا ہوا شخص تھا۔ جب اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ میں اس کے ہاتھ نہیں آؤں گی تو اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے 50 ہزار دے دوں اور وہ میری تصاویر کا استعمال کبھی نہیں کرے گا اور پھر میں نے اس سے اپنی جان بھی پیسے دے کر ہی چھڑوائی۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) کی چیئرپرسن نگہت داد نے اس بارےمیں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ایپس پر پروفائل بنانے کے لیے اسکریننگ سسٹم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔پروفائل کی تصدیق کے بغیر اس کو رجسٹر نہیں کیا جانا چاہئے، ایک سے زیادہ اکاؤنٹ پر پابندی ہونی چاہئے، ایسا سیکیورٹی چیک اَپ ہونا چاہئے، جس کے بعد کوئی بھی شخص جعلی تصویر نہ لگا سکے۔ تمام آن لائن ایپس کو اپنی سخت پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔

Back to top button