اپنے گھر کی خاطر کپتان نے قانون کی دھجیاں کیسے اڑایئں

کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کا کام مکمل ہوئے بغیر ہی دو نہیں ایک پاکستان بنانے کے دعوے دار وزیراعظم عمران خان کی سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی بنی گالہ رہائش گاہ کا نقشہ منظور کرتے ہوئے اسے ریگولرائز کردیا اور تمام متعلقہ قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں۔ لیکن سی ڈی اے نے بنی گالہ میں موجود درجنوں دیگر تعمیرات کو ریگولرائز کروانے کی تمام درخواستیں مسترد کردیں۔ سی ڈی سے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی بنی گالہ رہائش گاہ کے نقشے کی منظوری 5 مارچ 2020 کو دی گئی لیکن اسکو خفیہ رکھا گیا، بنی گالہ میں اپنی ناجائز تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے لیے عمران خان نے 106 روپے مربع فٹ کے حساب سے گیارہ ہزار تین سو مربع فیٹ ایریا کے لیے صرف 12 لاکھ 6 ہزار روپے جرمانہ ادا کیا۔ انکی رہائش گاہ کا نقشہ ترمیم شدہ بلڈنگ ریگولیشن 2020 کے تحت منظور کیا گیا جس کی منظوری وزیراعظم عمران خان نے بطور وزیر داخلہ دی۔یاد رہے کہ سی ڈی اے کو وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا تھا اور شیخ رشید کے دسمبر میں وزیر داخلہ بننے سے پہلے تک یہ یہ محکمہ انہی کے پاس تھا۔

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد کے حکام کا کہنا ہے کہ عمران کی بنی گالہ رہائش گاہ کے نقشے کی فائنل منظوری اور کمپلیشن سر ٹیفیکیٹ کو کنسلٹینٹ کی رپورٹ کے بعد جاری کیا جا ئیگا۔ تاہم منظور شدہ نقشے میں وزیراعظم کے گھر میں 6 بیڈ روم، ڈرائنگ روم، ڈائنگ ہال، پلے روم، دفتر اور رسیپشن بھی شامل ہے، نقشہ سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن نے منظور کیا، نقشہ 5مارچ 2020 کو منظور کیا گیا، سی ڈئ اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر رحیم خان بنگش نے منظوری کا خط جاری کیا ہے، یہ خط عمران احمد خان نیازی کے نام لکھا گیا اور گھر کا پتہ ہائوس نمبر کی جگہ خسرہ نمبر 1939 کھیوٹ نمبر 960 اور کھتونی نمبر 1652 ،1654، 1658 ، 1660 اور 1674، موضع موہرہ نور اسلام آ باد تحر یر کیا گیا ہے، ریگولرائز کیا جانے والا کل کورڈ ایر یا 11371.09مربع فٹ ہے جس کے بلڈنگ پلان کی منظوری دی گئی ہے، سئ ڈئ اے نے نقشہ منظور کرائے بغیر عمارت کی تعمیر کی مد میں 12 لاکھ 6ہزار روپے جرمانے کی رقم وصول کی اور اس طرح کی سہولت بنی گالہ کے کسی اور رہائشی کو نہیں دیں گی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی گالہ کے دیگر رہائشیوں کو عمران خان کی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے صادق اور امین قرار نہیں دیا گیا تھا۔

لیکن سی ڈی اے کے حکام کا موقف ہے کہ یہ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے اور جنوری 2020 میں لاگو کئے گئے نئے بلڈنگ بائی لاز کے تحت بنی گالہ کی زون ٹو ، زون فور اور زون فائیو میں انفرادی گھروں کے نقشوں کی منظوری کی اجازت دی گئی ہے۔۔یاد رہے کہ وزیر اعظم کا گھر بنی گالہ کی زون فور میں واقع ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے کا یہ فیصلہ سراسر غیر قانونی ہے کیونکہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے 27 اپریل 1980 کے ایک اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی میونسپل حدود میں تمام علاقے خصوصا بنی گالہ کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا تھا۔ اس اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ 1960 میں تیار کیے گئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں بنی گالہ کو واضح طور پر ماحولیات کے اعتبار سے حساس قرار دیا گیا تھا۔ اسلام آباد پلان کی تیاری کے وقت بنی گالہ کو کورنگ دریا اور راول جھیل کا کیچ منٹ ایریا ہونے کی وجہ سے نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 2007 میں ایک فیصلے کے تحت بنی گالہ کے محض کچھ رقبے پر نجی سکیم کی اجازت دی تھی تاہم ان علاقوں میں شکار کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔

لیکن بنی گالہ مقدمے میں وزیر اعظم عمران خان کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کا گھر ماسٹر پلان کے تحت آبادی کے لیے ممنوع علاقے میں قائم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ گھر نجی اراضی پر بنا ہوا ہے اور ایکوایڈ لینڈ پر نہیں ہے۔ سی ڈی اے نے نوٹس جاری کیا جسکے جواب میں عمران خان نے اس گھر کو باضابطہ بنانے کے لیے درخواست دی اور پھر بتایا گیا جرمانہ ادا کرکے اس کو ریگولرائز کروالیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام کاروائی عمران خان نے بطور وزیر داخلہ خود سپروائز کی چونکہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے فوری بعد سی ڈی اے کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا تھا.

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپریل 2018 میں عمران خان کی بنی گالہ رہائش گاہ اور سیکٹر ای 11 میں قائم تعمیرات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور ان کی رگولیرائزیشن کی شدید مخالفت کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اس بنچ نے اپنے اپریل 2018 کے فیصلے میں سوال اٹھایا تھا کہ اگر بنی گالہ میں تعمیرات کو باضابطہ بنانے کا ارادہ ہے تو پھر باقی ماندہ اسلام آباد میں اس قسم کی دیگر آبادیوں کے بارے میں کیا کیا جائے گا۔ عدالت کا معمولی فیس کی ادائیگی کے بدلے میں غیرقانونی تعمیرات کے بارے میں کہنا تھا کہ اس جگہ اکثر مکانات بااثر اور مراعات یافتہ کے ہیں تو اس علاقے کی ترقی پر جیسے کہ سڑکیں اور دیگر سہولیات پر آنے والے خرچے کا بوجھ ٹیکس دینے والوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ عدالت نے نوٹ کیا تھا کہ ان سوالات کے انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھے۔

تاہم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار عرف بابا رحمتے نے بعد ازاں عمران خان کی ایک درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے یکم اکتوبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان کو اپنی بنی گالہ نجی رہائش گاہ کو باضابطہ بنانے کی اجازت دے دی تھی۔ ثاقب نثار نے کہا کہ عمران خان اہنی جائیداد کو ریگولرائز کرنے کے لیے جرمانہ ادا کرکے ایک روایت قائم کریں۔
تاہم اس جرمانے کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے یعنی 106 روپے پراسکوائر فٹ۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ عمران خان کے علاوہ بنی گالہ کے کسی اور رہائشی کو اپنی جائیداد ریگولراز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور دیگر تعمیرات کو مسمار کیا گیاتھا۔ ثاقب نثار کے 2018 کے حکم نامے کے مطابق مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جن لوگوں نے بنی گالہ میں مکانات تعمیر کیے انھوں نے ماحول کو ایسے نقصانات سے دوچار کیا جس میں سے بعض ناقابل تلافی ہیں۔ چنانچہ ایسی تعمیرات کو باضابطہ بنانا درست نہیں ہے۔ یعنی چیف جسٹس نے 2018 میں عمران خان کے معاملے میں ایک نہیں دو پاکستان کا اصول اپنایا۔

اس سے پہلے بنی گالہ میں کی گئی ہر طرح کی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کی تجویز کو سختی سے رد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نے اپریل 2018 کے حکمنامے میں سوال کیا تھا کہ کیا بنی گالہ میں ایسی عمارتوں کو باضابطہ بنانا درست ہے جو آگے چل کر بھی ماحول کے لیے خطرہ رہیں گی؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کا استفسار تھا کہ یہ شہر کوئی عام شہر نہیں ہے، یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے جس میں ہر شہری کا حصہ ہے۔ اس شہر کا ماسٹر پلان اس قوم کا اثاثہ تھا، تو کیا کسی مراعات یافتہ شخص کو اس ماسٹر پلان کو نقصان پہنچانے کا فائدہ دیا جانا چاہیے؟ یہاں عدالت کا اشارہ عمران خان کی رہائش گاہ کی طرف تھا۔ عدالت نے کہا کہ مراعات یافتہ افراد کو عوامی مفاد کے مقابلے میں سہولت نہیں دینی چاہیے۔ عوامی مفاد کو ہمیشہ چند افراد پر فوقیت دی جاتی ہے۔ مراعات یافتہ کلاس کے مفادات نے کم مراعات یافتہ کی پہنچ سے بہت دور کر دیا ہے جو غیرقانونی طور پر قائم کی گئی نجی سوسائیٹوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کے تب کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے اپنی ناجائز تعمیرات ریگولرائز کرنے کی اجازت دے دی حالانکہ تب یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اسلام آباد شہر کے لینڈ ریونیو ریکارڈ اور جمائما خان کے بیان حلفی کے مطابق عمران خان سال 2003 میں بنی گالہ کی جائیداد کے مالک نہیں تھے لیکن اس جائیداد کا این او سی ان کے نام پر غلط طریقے سے جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا بنی گالہ رہائش گاہ کا کمپیوٹرائزڈ این او سی عمران خان کے نام پر ہے اور اس کی تاریخ اجرا 2003 کی ہے۔ یاد رہے کہ این او سی صرف جائیداد کے مالک کے نام پر جاری کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے یہ این او سی سپریم کورٹ میں اپنی بنی گالہ کی زمین ریگولرائز کروانے کے لیے جمع کروایا تھا۔

سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا بنی گالہ رہائش گاہ کا این او سی یونین کونسل بھارہ کہو نے عمران خان کے نام پر ایشو کیا تھا حالانکہ بنی گالہ جائیداد جمائمہ سے عمران خان کے نام پر 11 جون 2005 کو ٹرانسفر کی گئی تھی۔ جمائما نے خود 21 ستمبر 2004 کو بنائی گئی ایک پاور آف اٹارنی میں لکھا ہے کہ بنی گالہ زمین کی مالک وہ ہیں جسے وہ عمران کے نام پر ٹرانسفر کرنا چاہتی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ یونین کونسل یا محکمہ مال کا کوئی دوسرا افسر کسی ایسے شخص کے نام پر زمین کا این او سی جاری کرے جو جائیداد کا مالک نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف کپتان کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا کمپیوٹرائزڈ این او سی عمران خان کے نام پر تھا اور اس کی تاریخ 2003 ہے۔

اسلام آباد کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق جمائما خان نے 300 کنال اور پانچ مرلے زمین اپریل 2002 سے جون 2005 کے درمیان خریدی۔ یعنی جون 2005 تک زمین کی ملکیت جمائما کے نام پر تھی اور قانونی طور پر عمران خان کے نام پر اس کا ملکیتی این او سی جاری نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تو پھر کیا یہ این او سی جعلی تھا؟ سپریم کورٹ کے وکیل اکرم شیخ کے مطابق سپریم کورٹ میں ایک جعلی دستاویز جمع کرانے پر وزیر اعظم عمران خان آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل بھی قرار دیئے جا سکتے تھے جو کسی بھی پارلیمنٹرین کے صادق اور امین ہونے کے متعلق ہے۔ انکا کہنا تھا کہ دھوکہ دہی کی نیت سے کی جانے والی جعلسازی کی سزا سات برس قید تک ہو سکتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کو دھوکہ دینا ایک الگ جرم ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ تب کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس جعلی این او سی کا نوٹس لینے کی بجاۓ وزیراعظم عمران خان کو اپنی غیر قانونی تعمیرات ریگولرائز کروانے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ وہ انہیں پہلے ہی ایک اور فیصلے میں صادق اور امین قرار دے چکے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button