اپوزیشن اور حکومت کے مابین برف کیوں پگھلنے لگی؟

اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے مابین اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں سے برف پگھلنے کا آغاز ہوچکا ہے جس کا ایک واضح ثبوت وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مل بیٹھنے کی دعوت دینا تھا۔ یہ بھی پچھلے تین برس میں پہلا موقع تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ آرائی کرنے کی بجائے بڑے تحمل اور سکون سے وزیراعظم کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تقریر سنی۔ چنانچہ یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت میں بڑھتے فاصلے سمٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن اس سے انکاری ہے مگر شیخ رشید سمیت حکومتی وزرا ’سب ایک صفحے پر‘ ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔
جہاں اپوزیشن فوجی قیادت کی ھالیہ بریفنگ پر تسلی کا اظہار کر رہی ہے وہیں وزیر اعظم عمران خان کی اس اہم اجلاس میں غیر حاضری پر تنقید بھی کرتی نظر آ رہی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا صرف فوج اور اپوزیشن ایک صفحے پر دکھائی دے رہی ہیں؟ حکومت کا موقف ہے کہ عمران خان اس لیے فوجی بریفنگ میں شامل نہیں ہوئے تاکہ اپوزیشن والے پوری تسلی کے ساتھ فوجی قیادت کی خوشامد کر سکیں اور ایسا کرتے وقت وہ وزیراعظم کی موجودگی کی وجہ سے شرمندگی محسوس نہ کریں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کو قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بریفنگ افغانستان کی بدلتی صورتحال اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات سے متعلق بہت اہمیت کی حامل تھی۔ بلاول بھٹو کے مطابق وزیر اعظم کی اس اجلاس میں عدم شرکت نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وزیر اعظم کی انا قومی مفاد سے بھی بڑھ کر ہے۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے تھے لیکن اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا سپیکر قومی اسمبلی کو پیغام گیا تھا کہ وزیراعظم آئیں گے تو وہ اجلاس میں نہیں آئیں گے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی انفارمیشن سیکریٹری مریم اورنگزیب نے وزیر اطلاعات کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب وزیر اعظم اس اجلاس میں شریک ہی نہیں تھے تو شہباز نے منع کیسے کیا؟ مسلم لیگ(ن) کے صدر نے کسی کو کوئی پیغام نہیں بھیجا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’فواد چودھری صاحب کے پاس کوئی سرکاری دستاویز ہے جس میں شہباز شریف نے منع کیا ہو کوئی ثبوت شہباز شریف یا شہباز شریف کے دفتر کی کوئی سرکاری خط و کتابت ہے تو دکھائیں؟‘
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے بتایا کہ جہاں تک قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس کی بات ہے تو خود ان کی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کے بارے میں کہا تھا اور دوران بریفنگ وزیر اعظم کی غیر موجودگی پر بھی سوال اٹھایا۔ان کے مطابق متعدد سوالات ایسے ہی کہ جن کے جوابات چیف ایگزیکٹو کو ہی دینے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے تمام فیصلوں کے اختیارات ہیں۔ ان کی رائے میں خود اجلاس میں شریک نہ ہو کر اس طرح اداروں کو سامنے کر دینا زیادتی ہو گی۔ شازیہ مری نے کہا کہ جب بھی کوئی اہم موقع آتا ہے تو وزیر اعظم پارلیمنٹ سے باہر رہتے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے سے لے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے تک اہم امور پر وزیر اعظم کی پارلمینٹ سے غیر موجودگی کا ذکر کیا۔
ان کے مطابق وزیر اعظم کو قومی مفاد میں ہر چیز سے بالاتر ہو کر ایسے اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہیے کیونکہ ملک ان کی غیر سنجیدگی ملک کا متحمل نہیں ہو سکتا اور افغانستان کے حالات کے اثرات پاکستان پر بڑے گہرے ہوں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بجٹ سیشن پر وزیر اعظم کے ساتھ اپوزیشن کی کوئی ڈیل ہوئی تھی؟تو شازیہ مری نے بتایا کہ ان کی قیادت کو سپیکر چیمبر بلایا گیا اور وزیر اعظم کی تقریر سے متعلق بات کی گئی۔ ان کے مطابق ہم تو ویسے بھی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو اکھاڑا نہ بنایا جائے۔ ہم ایک عرصے سے سپیکر کو یاد دلاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو آئین اور قانون کی روشنی میں چلایا جائے۔ تاہم حکومت کی طرف سے رابطے کرنے پر اس بات پر اتفاق ہوا کہ وزیر اعظم اپنی تقریر میں قومی مفاد پر بات کریں گے اور اپوزیشن قیادت پر الزام تراشی نہیں کریں گے ورنہ سیاسی کارکنان اس پر ردعمل دیں گے کیونکہ وہ اپنی قیادت پر اس طرح کیچڑ اچھالنے کو پسند نہیں کرتے۔شازیہ مری کے مطابق پارلیمانی روایات ہیں کہ پارلیمنٹ کا ماحول اچھا رکھنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں مگر اس کے ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو آئندہ بھی سیدھے رستے پر رکھنے کے لیے پارلیمانی روایات کو یاد کراتے رہیں گے۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کی آرا بھی اس صورتحال پر منقسم نظر آ رہی ہیں۔ رسول بخش رئیس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن اور حکومت کو یہ بات سمجھائی ہے کہ خطے کے حالات کے سازگار نہیں ہیں اور ایسے میں اتفاق رائے پہلے سے بھی کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے مؤقف میں نرمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی سندھ حکومت تک ہی معاملات آگے بڑھا رہی ہے جبکہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان بیک ڈور رابطوں میں یہ بات طے پا گئی ہے کہ اب حالات کو سازگار بنانا ہے۔ سینیئر صحافی ضیاالدین کا کہنا ہے کہ سیز فائر متوقع تھا کیونکہ وزیر اعظم کو اپنی بات کہنی تھی اور پھر اس کے بدلے میں انھوں نے اپوزیشن کو چور اور ڈاکو نہیں کہا۔ ان کے مطابق اس وقت مفاہمت ممکن نہیں ہے کیونکہ عمران خان جمہوریت میں بھی کرکٹ کے اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک عمران خان اسی ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ اپوزیشن والے چور ڈاکو ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
سینئر صحافی نسیم زہرا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود کہہ دیا جو کہ غیر معمولی بات تھی کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ ان کے مطابق کچھ نہ کچھ حالات سازگار ضرور ہو رہے ہیں اور اب حکومت کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ابھی حکومت اور اپوزیشن میں دوریاں کم ہو رہی ہیں یا بات مفاہمت کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ ان کے خیال میں ماضی میں بھی کبھی اگر کچھ اتفاقات دیکھنے کو ملے تو بعد میں چلا کہ وہ سب کچھ مختصر وقت کے لیے تھا۔
رسول بخش رئیس کے مطابق ان کے مطابق عمران خان کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ان کے آفس کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ہر وقت اپوزیشن کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے رہیں۔ان کے خیال میں بات چیت سے حکومت اور اپوزیشن میں مزید پش رفت ممکن ہے اور دونوں آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کریں گے۔ تاہم ان کے مطابق معاملات شہباز شریف کے ہاتھ میں نہیں ہیں اور ایسی کسی بھی ڈیل یا مفاہمت کی منظوری براہ راست نواز شریف ہی دیں گے۔