"اچانک پْلس مقابلہ” کی سازشی تھیوری

تحریر: نصرت جاوید ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

جولائی 2023ء سے ایک ٹی وی چینل کے لئے پیر سے جمعرات شام آٹھ بجے ایک لائیو شو کررہا ہوں۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ آرائی پر توجہ دیتے اس شو کی تیاری کے لئے دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کی کوشش کے بعد 4بجے کے قریب گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ گھر میرا اسلام آباد کے سیکٹرF-8/2میں ہے۔ دفتر ریڈ زون کے پچھواڑے میں پارلیمان ہائوس وسپریم کورٹ کی عمارتوں کے عین سامنے واقعہ سڑک کی پچھلی گلی میں ہے۔ گھر سے دفتر تک پہنچنے میں 20منٹ درکار ہوتے ہیں۔
پیر کی سہ پہر حسب معمول گھر سے نکلا تو میرے ایک مہربان دوست نے جو ایک معروف بینک کے سینئر افسروں میں سے ایک ہیں مجھے واٹس ایپ کے ذریعے مقامی پولیس کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ بھجوائی۔ اس کے مطابق ’’مذہبی جماعتوں‘‘ کے کارکنوں پر مشتمل ایک گروہ ریڈ زون میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ کارکن آب پارہ اور میلوڈی چوک سے روانہ ہوئے تھے۔ راولپنڈی سے ان کے لئے کارکنوں کو مزید کمک بھی متوقع ہے۔ اسلام آباد کے بلیو ایریا کو لہٰذا سیل کردیا گیا ہے۔

موت سے واپسی!

جو لوگ اسلام آباد سے واقف نہیں انہیں بتانا ہوگا کہ دنیا کے نیویارک جیسے بڑے شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی دو رویہ تین تین لین پر مشتمل ’’ایونیو‘‘ بنائی گئی ہیں۔ مقصد ان کا شہریوں کو اپنے گھروں یا دوسرے شہروں سے آئے سیاحوں کو سگنل فری انتظامات کے ذریعے منزل مقصود تک تیز تررفتار سے پہنچانا ہے۔ بلیو ایریا مگر وکھری نوعیت کا ہے۔ اسلام آباد داخل ہونے کے بعد آپ چند کلومیٹر چل کر دائیں ہاتھ مڑیں تو ایک طویل اور کشادہ سڑک پر آجاتے ہیں۔ اس پر چلتے ہوئے آپ کو پارلیمان ہائوس کی عمارت بہت دور سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ غالباََ اس ایریا کو ڈیزائن کرتے ہوئے پیغام یہ دینا مقصود تھا کہ پاکستان میں ایک منتخب پارلیمان ہے جو ریاست کے باقی سب اداروں پر بالادست ہے۔ اسی باعث اسلام آباد میں داخل ہوکر دائیں ہاتھ مڑیں تو آپ کی نگاہ کے سامنے پارلیمان کے علاوہ کوئی عمارت نہیں آتی۔ بلیو ایریا کے دائیں اور بائیں جانب اگرچہ بلند قامت عمارتیں موجود ہیں۔ ان کے نیچے قیمتی سامان اور برانڈڈ کپڑے فروخت کرنے والی دوکانیں ہیں۔ کئی مشہور ریستوران بھی اس ایریا میں پائے جاتے ہیں۔
بہرحال بلیو ایریا کو نظرانداز کرتے ہوئے میں ’’چور راستوں‘‘ سے گزرتے ہوئے 20منٹ کے بجائے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے کی خجل خواری کے بعد اپنے دفتر پہنچا۔ وہاں پہنچ کر رپورٹروں کی زبانی معلوم ہوا کہ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کا ایک گروہ ’’اچانک‘‘ ریڈزون میں درآیا ہے۔ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک حساس ترین مسئلہ پر سنائے ایک فیصلے کے بارے میں مضطرب ہے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے اعلیٰ ترین عدالت کی عمارت کے روبرو پہنچ کر دھرنا دینا چاہ رہا ہے۔ پولیس انہیں روکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی ہجوم کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔’’اچانک‘‘ کا لفظ ذات کے اس رپورٹر کو ہضم نہیں ہوتا۔ اپنے جونیئر ساتھیوں کو جھکی پن کا استعمال کرتے ہوئے میں نے حقائق کا سراغ لگانے کو اْکسایا۔ بچوں نے تحقیق پر توجہ دی تو دریافت ہوا کہ مشتعل افراد ’’اچانک‘‘ اسلام آباد میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ راولپنڈی کے تاجران کے ایک گروہ نے ایک شدت پسند مذہبی جماعت کے ساتھ مل کر پیر کے روز بعدازدوپہر اسلام آباد کے ریڈزون پہنچنے کی کال دے رکھی تھی اور اس کی خاطر بینر اورپوسٹر بھی لگائے گئے تھے۔ پیر کے روزلہٰذاریڈزون میں پلس مقابلہ ’’اچانک‘‘ نہیں ہوا تھا۔
’’اچانک‘‘ کے تاثر نے مگر ایک سازشی تھیوری سے روشناس کروایا۔ جو متحرک رپورٹر تحریک انصاف سے رابطوں میں رہتے ہیں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ پیر کی دوپہر اسلام آباد میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اس کا اصل مقصد تحریک انصاف کو 22اگست کے دن جلسے کے انعقاد سے روکنا ہے۔ سچی بات ہے جو سازشی تھیوری میں نے سنی اسے ہضم کرنا مشکل لگا۔ اسے رد کرنے کو مگر معقول دلیل بھی ذہن میں نہیں آئی۔ سازشوں سے وطن عزیز میں اقتدار کا کھیل عرصے سے جاری ہے۔ انہیں فی الفور رد کردینا میرے جیسے عقل کے غلام کے لئے بھی تقریباََ ناممکن ہے۔
بہرحال بدھ کے روز دفتر جانے کے لئے بلیو ایریا کے اختتام پر پہنچا تو پارلیمان کی جانب بڑھتے راستے پر کنٹینر لگادئے گئے تھے۔ اسے دیکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ فرض کیا کہ میں غیر ملکی ہوتا۔ اسلام آباد میں دفتر بنانے کی خاطر گزشتہ ایک ہفتے سے یہاں مقیم ہوتا تو پیر سے بدھ تک پھیلی اضطرابی کیفیت کو بھانپنے کے بعد کیا محسوس کرتا۔ یہ سوچتے ہوئے دل بوجھل ہوگیا۔ دفتر پہنچا تو علم ہوا کہ انتظامیہ نے تحریک انصاف کی 22اگست کے جلسے کیلئے دی اجازت منسوخ کردی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت مگر اس کے باوجود اس کے انعقاد کو ڈٹی ہوئی تھی۔
22اگست کے جلسے کے لئے ترنول کا انتخاب ہوا تھا۔ یہ علاقہ اسلام آباد سے باہر راولپنڈی کو پشاور سے ملانے والی قدیم جی ٹی روڈ پر واقعہ ہے۔ وہاں ریل کا ایک پھاٹک بھی ہے۔ نظر بظاہر اس مقام پر جلسے کا انعقاد اسلام آباد کی روزمرہّ زندگی میں خلل ڈالنے کے قابل نہیں۔ حکومت کو مگر یہ دھڑکا لگارہتا ہے کہ تحریک انصاف کے انقلابی نوجوان جلسے کے دوران اپنی قیادت کو اسلام آباد کا رخ کرنے کو اْکساسکتے ہیں۔ رہ نما اگر رضا مند ہوجائیں تو ترنول سے فقط چند منٹوں میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر مشتمل ایک بڑا قافلہ مارگلہ روڈ پہنچ سکتا ہے۔ قافلہ اگر وہاں پہنچ جائے تو اسے ریڈزون تک پہنچنے سے روکنا دشوار تر ہوجاتا ہے۔
بدھ کی رات سونے سے قبل مجھے یقین تھا کہ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں تحریک انصاف کے بے تحاشہ کارکن ترنول میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں سوگیا۔ صبح تھوڑی دیر کو آنکھ کھلی تو ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے اطلاع ملی کہ ایک مذہبی تنظیم کے کارکنوں نے بھی 22اگست ہی کے دن ’’اچانک‘‘ ریڈ زون آنے کے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مجھے پیر کے دن بیان کردہ سازشی کہانی یاد آگئی۔ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے دوبارہ سوگیا۔ آنکھ کھلی تو ریموٹ کا بٹن دبایا اور ٹی وی سکرینوں سے اطلاع ملی کہ تحریک انصاف نے اپنے بانی کی ہدایت پر 22اگست کا جلسہ ستمبر تک موخرکردیا ہے۔ اس کے بعد کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا۔ آپ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھدار ہیں۔

Check Also
Close
Back to top button