اڈوں کی بجائے پاکستان نے امریکہ کو فضائی راستہ دے دیا

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا مطالبہ رد کیے جانے کے باوجود یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران انکے ساز و سامان کی واپسی کے لیے فضائی راستہ فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ایسا کسی تحریری معاہدے کے بغیر ہو رہا ہے۔
اس کا بڑا ثبوت 22 جون کی شب تب ملا جب کابل سے دنیا کے سب سے بڑے مال بردار طیارے ’انٹونوف اے این 225‘ نے اڑان بھری اور اگلی صبح کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا، یہ طیارہ ایئرپورٹ پر 20 گھنٹے سے زائد موجود رہا۔
اس کی آمد کچھ ایسی خفیہ نہیں تھی مگر غیر معمولی ضرور تھی اسی لیے میڈیا نے ’دنیا کے سب سے بڑے‘ جہاز کی کراچی ایئرپورٹ آمد کی خبر کو نمایاں کوریج دی۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی ایئر پورٹ پر طیارے نے ایندھن بھروایا اور واپس روانہ ہو گیا۔
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے یہ طیارہ کابل سے تین برطانوی جنگی ہیلی کاپٹر اور فوجی ساز و سامان لے کر انگلینڈ جاتے ہوئے سستانے کے لیے یہاں اُترا تھا۔ بتیا گیا یے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا کے آغاز کے بعد سے انٹونوف کمپنی کی متعدد پروازیں فوجی سازو سامان لے جانے افغانستان آ چی ہیں اور یہ پرواز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
سول ایوی ایشن کے ایک ترجمان کے مطابق انٹونوف ایندھن بھروانے کے لیے رُکا تھا اور پھر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا، جب ان سے معلوم کیا گیا کہ اس طیارے نے کس نوعیت کا ساز و سامان یہاں اتارا تو انھوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
دوسری جانب امریکی کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا جاری ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں جنگ کے لیے پاکستان نے فوجی رسد کی ترسیل کے لیے پُل کا کردار ادا کیا تھا۔ تب پاکستان سے افغانستان میں نیٹو کو فوجی ساز و سامان اور دیگر رسد کے دو زمینی راستے تھے، جن میں سے ایک خیبر پاس سے بذریعہ طورخم سے کابل اور دوسرا بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے قندھار تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد سامان کی ترسیل ان زمینی راستوں سے کی جاتی تھی جبکہ 31 فیصد سامان بذریعہ جہاز پہنچایا جاتا تھا۔ کراچی سے لے کر چمن اور پشاور تک کئی بار نیٹو ٹینکرز پر حملے بھی ہوئے اور انھیں نذر آتش بھی کیا گیا۔
امریکی رسد میں مدد فراہم کرنے کے بدلے پاکستان خاصی بڑی رقم سالانہ فیس کے طور پر وصول کرتا تھا، جس کو ‘اتحادی سپورٹ فنڈ’ کہا جاتا تھا۔ محکمہ خزانہ کے مطابق 2018 تک پاکستان 14 ملین ڈالر اس مد میں وصول کیے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد اس امداد کو بند کر دیا گیا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی اور رسد کی معطلی اس وقت پیش آئی جب 26 نومبر 2010 کو پاک افغان سرحدی چوکی سلالہ پر امریکی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔اس حملے کے فوری بعد پاکستان نے افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج کے لیے پاکستان کے زمینی راستوں سے جانے والی رسد بند کر دی۔
اس حملے کے بعد سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں بننے والی سینیٹ کی وزارت دفاع اور قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ مستقبل کی حکومتیں قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی بھی زبانی معاہدے نہ کرے، فوجی تعاون سمیت جن بھی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں ان سے متعلقہ محکموں کو آگاہ رکھا جائے۔
تاہم افغانستان سے انخلا کے دوران پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے سے انکار تو کر دیا ہے لیکن امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا میں پاکستان کی فضائی، زمین اور سمندری حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی یے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے؟ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے ‘زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کے معاملے پر وزارتِ دفاع بہتر معلومات دے سکے گی۔’ اس معاملے پر ڈیفنس کمیٹی کے رُکن مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ساز و سامان ایئرلفٹ ہی ہوگا، پاکستان کے حوالے سے کوئی معاہدہ ابھی نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی منتخب سیاسی قیادت اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ممبران کو حال ہی میں افغانستان سے فوجی انخلا کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ چار گھنٹے جاری رہنے والی اس بریفنگ میں عسکری حکام نے شرکا کو افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا اور بعد کی صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔ میٹنگ میں شریک ایک سیاستدان نے بتایا کہ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ‘افغانستان سے فوجی انخلا کے دوران پاکستان امریکہ کو زمینی اڈے نہیں دے رہا ہے۔ لیکن یہ بات واضح کی گئی کہ امریکہ کے ساتھ سابقہ معاہدوں کی بنیاد پر فضائی حدود کا استعمال جاری ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر امتیاز گل کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سامان تو افغانستان میں ہی تباہ کیا جا رہا ہے یا ناکارہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ افغانستان نے یہ سامان پاکستان کو دینے پر اعتراض کیا تھا۔ باقی جو سامان ہے وہ جہازوں سے روانہ ہو رہا ہے۔ کچھ سامان پاکستان کے راستے بھی جا رہا ہے۔ امتیاز گل کے مطابق اگر اس حوالے سے کوئی معاہدہ ہوتا تو یقیناً منظر عام پر آ چکا ہوتا۔ لگتا ہے یہ سب کسی معاہدے کے بغیر ہو رہا ہے۔