ایجنسیاں سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کو ننگا کرنے لگیں


اسٹیبلشمینٹ پر تنقید کی پاداش میں دو مرتبہ اغوا ہونے والے معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شفیق احمد ایڈووکیٹ نے ایجنسیوں کے کرتوت بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان پر نہ صرف جسمانی تشدد کیا گیا بلکہ انہیں ننگا کر کے وڈیوز بھی بنائی گئیں اور یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر میں نے سویلین بالا دستی کی جدوجہد ترک نہ کی تو ان ویڈیوز کو وائرل کر کے انکو قتل کر دیا جائے گا۔
سویلین بالادستی کی جنگ لڑنے والے عمران حکومت کے ناقد 37 سالہ وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن شفیق کہتے ہیں کہ انہیں برہنہ کر کے آن کیمرہ یہ کہلوایا گیا کہ میں آئندہ سوشل میڈیا پر کسی پر کوئی تنقید نہیں کروں گا۔ شفیق کا دعویٰ ہے کہ انکے اغوا کاروں نے دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو ان کی برہنہ ویڈیوز کو وائرل کر دیا جائے گا اور انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ شفیق کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ان کے اتنا پیچھے پڑے کہ لوگوں نے کام کی غرض سے ان کے پاس آنا چھوڑ دیا اور ان کے پڑوسیوں نے ان سے رابطہ ختم کر دیا۔جس سے انکی وکالت بھی ختم ہو گئی۔ لیکن شفیق کہتے ہیں کہ میں خاموش نہیں ہوا، اور اپنی آواز بلند کرنا جاری رکھا۔ بی بی سی کو اپنے اغوا کی روداد سناتے ہوئے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے شفیق احمد نے بتایا کہ وہ دسمبر 2019 میں اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے جب منہ ڈھانپے ہوئے چند افراد نے انھیں دبوچ کر زبردستی ایک گاڑی میں دھکیل دیا۔ انھوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھ دیں اور میری آنکھیں ڈھانپ دیں۔ پھر مجھے گاڑی سے باہر نکال کر ایک کمرے میں پھینک دیا اور مجھ پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں پوچھی، بس میرے کپڑے اتار کر مجھے برہنہ کر دیا اور مجھے زور زور سے چمڑے کی بیلٹ اور لاٹھیوں کی مدد سے مارنا شروع کر دیا، میری کمر پر، میرے تلوے پر۔ شفیق احمد بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ تشدد کا سلسلہ پانچ سے چھ دن تک جاری رہا۔ اس دوران انھیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رکھا گیا جہاں روشنی کا کوئی گزر نہیں تھا۔
شفیق احمد بتاتے ہیں کہ انھیں لگتا تھا کہ ان کی یہیں موت ہو جائے گی۔ مجھے کہا گیا کہ تمہاری لاش کو دریا میں پھینک دیا جائے گا۔ اپنے رہائی کے بعد شفیق احمد نے ویڈیو بنائی جس میں ان پر ہونے والے تشدد کے نشان واضح طور پر نظر آتے ہیں۔شفیق نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران اغوا کاروں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری فیس بک اور ٹوئٹر پر کی گئی پوسٹس کے پیچھے کون ہے؟ میں نے ان کو کہا کوئی مجھے نہیں بتا رہا کہ کیا لکھنا ہے۔ میری سویلین بالادستی کے بارے میں اپنی خود مختار سوچ ہے۔ لیکن اغوا کار میری بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ شفیق نے بتایا کہ ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ انہیں ‘فنڈنگ’ کس سے مل رہی ہے، ان کے دیگر ‘لبرل’ سماجی کارکنوں سے کیا تعلقات ہیں اور فوج کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مظاہرے کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ سے کیسے روابط ہیں۔آنکھوں پر پٹی بندھے ہوئے شفیق کو اس سوال جواب کے دوران محسوس ہوا کہ ان کے اغواکاروں کے پاس ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کی کاپیاں ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب شفیق کو اس طرح نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل اپریل 2019 میں بھی ان پر ایجنسیوں کے بارے میں تضحیک آمیز مواد شائع کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن یہ آگے نہیں بڑھا۔ اس کے دو ماہ بعد جون 2019 میں شفیق کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خبردار کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کو ختم کریں۔ اس کے بعد انھیں گھر سے کوئی 50 کلومیٹر دور لے جا کر پھینک دیا گیا۔ اس موقعے پر بھی ان کے اغوا کاروں نے انہیں برہنہ کر کے ویڈیو بنائی اور ان کو مجبور کرتے ہوئے بیان دلوایا کہ میں اب سوشل میڈیا پر کسی کے بارے میں کوئی تنقید نہیں کروں گا۔ شفیق احمد کا دعوی ہے کہ ان کے اغواکاروں نے دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو ان کی ویڈیوز کو وائرل کر دیا جائے گا اور انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ جب وہ سوشل میڈیا پر پھر سے متحرک ہوئے تو دسمبر 2019 میں انھیں دو ہفتے کے لیے پھر اغوا کر لیا گیا۔ شفیق کو یقین ہے کہ ان کے اغواکاروں کا تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے تھا۔ شفیق سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور پاکستانی فوج پر تنقید کرتے تھے جن کے بارے میں کئی لوگ کا یہ تاثر ہے کہ وہ پس پردہ ملکی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شفیق احمد کے ساتھ ہونے والا واقعہ، ان کا اغوا اور ان پر ہونے والا تشدد ایک ایسے سلسلے کی کڑی ہیں جس میں ریاست کے ناقدین کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور بالخصوص ان افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت یا 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہیں جن کی مدد سے عمران خان کی موجودہ حکومت کا قیام وجود میں آیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ شفیق احمد کی گرفتاری اور پھر رہائی کے بعد کے ایک سال کے عرصے میں پاکستان میں حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک صحافی، اسد علی طور کے گھر میں نامعلوم افراد داخل ہوئے جنھوں نے اپنا تعلق آئی ایس آئی سے ظاہر کیا اور انھیں باندھا اور مارا پیٹا۔اس سے قبل اپریل میں ایک اور صحافی ابصار عالم کو ان کے گھر کے باہر گولی ماری گئی جب وہ چہل قدمی کر رہے تھے جبکہ گذشتہ برس ایک اور معروف صحافی مطیع اللہ جان کو کئی گھنٹوں کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ اسی طرح سنیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر، جن پر 2014 میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا، نے گذشتہ ہفتے ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے خلاف بڑی سخت تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ صحافیوں پر حملے بند کیے جائیں۔ اس تقریر کے بعد حامد میر کو ان کے ادارے نے چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کا صحافتی آزادی کے حوالے سے 145واں نمبر ہے۔

Back to top button