اینکر ارشد شریف نے صدیق جان کی ٹھکائی کیوں کی؟


صحافی کا لبادہ اوڑھے صدیق جان نامی خفیہ ایجنسیوں کے ٹاؤٹ کی چند روز پہلے اینکر پرسن ارشد شریف کے ہاتھوں دھلائی اور ٹھکائی کے فوری بعد بھائی لوگوں نے سوشل میڈیا پر ‘ارشد شریف کو گرفتار کرو’ کا ٹرینڈ چلوا دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا گیا۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ صدیق جان نے جو بویا وہی کاٹا کیونکہ وہ اپنی بدزبانی سے لوگوں کی ذات پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ریڈ لائن کراس کر چکا تھا۔
یاد رہے کہ صدیق جان نامی ٹاوٹ اکثر خفیہ والوں کے ایما پر اسٹیبلشمینٹ مخالف سینئر صحافیوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ہے اور ذاتیات۔پر اتر آتا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر ہی گردش کرتی اطلاعات کے مطابق نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے منسلک سینیئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف اور ان کی ٹیم نے گوادر میں صدیق جان کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کا موبائل بھی توڑ دیا جس سے وہ ارشد کی ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ صدیق جان کی ٹھکائی کی خبر سوشل میڈیا پر ڈالنے کے فوری بعد مہربانوں نے #ArrestArshadSharif ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بنوا دیا۔ تاہم جہاں کچھ لوگ صدیق جان کی دھکائی مذمت کر رہے ہیں وہیں زیادہ تر لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ کہ ایسا ہو کر رہنا تھا۔
گوادر کے ہائی سکیورٹی علاقے میں صدیق جان کی دھلائی کے بعد اسکے ایک ساتھی اسد اللہ خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں گوادر واقعے کی تفصیل بیان کی گئی۔ اس نے دعوی کیا کہ ارشد شریف نے لڑائی کا آغاز کرتے ہوئے صدیق جان کو زمین پر گرا کر مارا اور اسکے منہ پر مکے برسائے۔
تاہم ارشد شریف کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ لڑائی کا آغاز صدیق جان نے کیا اور ارشد شریف پر کوئی غلط فقرہ کسا جس کے بعد بات بڑھ گئی اور جھگڑا شروع ہو گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صدیق جان لمبے عرصے سے اپنے یوٹیوب وی لاگز میں ارشد پر ذاتی حملے کر رہا تھا جس کا نتیجہ گوادر میں مارکٹائی کی صورت میں سامنے آیا۔
دوسری جانب صدیق جان کا اصرار ہے کہ اسے بلا وجہ مارا گیا اور بہت زیادہ پیٹا گیا۔ اسلامیہ اور یے کہ جب تک سکیورٹی اہلکار مجھے چھڑوانے پہنچے تب تک اسے کافی زیادہ چوٹیں آ چکی تھیں۔ صدیق جان کے بقول اسے اتنا ذیادہ مارا گیا کہ اس کی جیب میں پڑا موبائل بھی ٹھڈوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ گوادر میں پیش آنے والے اس واقعے کے چند عینی شاہدین کے مطابق ارشد شریف کے میز کے پاس سے گزرتے ہوئے صدیق جان نے انکی ویڈیو بنانے کی کوشش کی اور منع کرنے پر کوئی نازیبا فقرہ کس دیا جس پر ارشد نے جوابی کارروائی کی۔ اسی دوران ان کے پروگرام کے پروڈیوسر عدیل راجہ اور ٹیم کے دیگر اراکین بھی آگئے اور صدیق جان کی مذید دھلائی کی۔
اس واقعے کے بعد جہاں کچھ ٹوئٹر صارفین مطالبہ کر رہے ہیں کہ ارشد شریف کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے وہیں صارفین کی اکثریت ارشد شریف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
زیادہ تر صارفین کا موقف ہے کہ صدیق جان صحافی کے روپ میں بھاڑے کا ایک ٹاؤٹ ہے جو خفیہ والوں کے اشارے پر اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافیوں اور سیاستدانوں کی کردار کشی ہڑتال ہے اور انکی ذات پر کیچڑ اچھالتا ہے لہذا اس کے ساتھ جو ہوا وہ ہو کر رہنا تھا۔

Back to top button