بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ کی ہلاکت معمہ بن گئی

بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ حلیمہ کی ہلاکت معمہ بن کر رہ گئی ، حلیمہ یونیورسٹی کی چوتھی منزل سے سیلفی لیتے ہوئے نیچے جا گری تھیں جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگئیں لیکن طلبا کا کہنا ہے کہ کلاس روم کے سامنے کھلی جگہ سے پائوں پھسلنے کی وجہ سے حلیمہ نیچے گرے ، اس جگہ کو انتظامیہ نے بوریوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حلیمہ کے والد محمد امین نے کہا کہ اپنی بیٹی کی ہلاکت پر کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے کا بیان اپنی مرضی سے دیا ہے ، قانونی کارروائی نہ کرنے سے متعلق ان پر نہ تو یونیورسٹی کی انتظامیہ اور نہ ہی کسی ادارے کی طرف سے کوئی دباؤ تھا۔سکینڈ ایئر کی طالبہ حلیمہ امین کی ہلاکت کے سلسلے میں کارروائی نہ ہونے پر یونیورسٹی کے طلبا کا احتجاج جاری ہے تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی نہ تو تحقیقات ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق بحریہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے پیر کو مارگلہ روڈ پر احتجاج کیا ، مظاہرین حلیمہ کے مبینہ قتل کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔مظاہرین کا موقف تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات سے پہلے یونیوسٹی کے ڈائریکٹر کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے اور حلیمہ امین کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس حکام نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور اُنھیں اس معاملے کی مکمل طور پر تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تاہم اس یقین دہانی کے برعکس ایس ایچ او تھانہ مارگلہ کے مطابق پولیس نے اس معاملے کو قانون کے مطابق ختم کر دیا ہے۔
تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او محمد بشارت نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نیول پولیس نے مارگلہ پولیس کو بتایا ہے کہ حلیمہ کے والد محمد امین نے ہسپتال میں بیان دیا ہے کہ ان کی بیٹی کی موت حادثاتی تھی ، اس لیے وہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کروانا چاہتے ، حلیمہ کے والد کی طرف سے اس بیان کے بعد پولیس نے اس معاملے کو قانون کے مطابق ختم کر دیا ہے اور اب اس سلسلے میں نہ تو تحقیقات کی جا رہی ہیں اور نہ ہی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
تھانہ مارگلہ پولیس کا موقف ہے کہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ حلیمہ یونیورسٹی میں زیر تعمیر عمارت کی چوتھی منزل سے مبینہ طور پر سیلفی بناتے ہوئے گریں جس سے ان کی ہلاکت ہوئی ہے۔
تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او محمد بشارت سے جب اس ضمن میں پوچھا گیا کہ کیا پولیس نے جائے حادثہ کا دورہ کیا ہے تو اُنھوں نے اس کا نفی میں جواب دیا اور کہا کہ پولیس نے ابھی تک اس جائے حادثہ کا دورہ تو نہیں کیا تاہم یونیورسٹی کی انتظامیہ اور نیوی پولیس کی طرف سے جو معلومات ملتی رہی ہیں ، اس کی بنیاد پر ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ حلیمہ امین کی موت ایک حادثہ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
مظاہرین پولیس کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ حلیمہ کی ہلاکت یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے ، مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ حلیمہ جس کلاس سے باہر آ رہی تھیں وہاں دروازے اور زمین کے بیچ موجود خلا کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جسے انتظامیہ نے بوریاں بچھا کر ڈھانپ دیا تھا۔ حلیمہ کا پیر اس پر لگا اور وہ اپنا توازن کھو کر نیچے گِر گئیں اور ہلاک ہو گئیں۔
ایس ایچ او مارگلہ سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا پولیس نے حلیمہ کے زیر استعمال موبائل فون کو فورینزک کے لیے بھجوایا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ سیلفی کھینچنے کے دعوے میں کتنی سچائی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موبائل پولیس کو نہیں دیا گیا۔ان کے مطابق سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ حلیمہ کے والد محمد امین نے پولیس کو دو روز قبل بیان دیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی ہلاکت سے متعلق کوئی قانونی کارروائی نہیں کروانا چاہتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button