بزدار کے ہیلی کاپٹر پر ٹک ٹاک ویڈیوز کون بنانے لگا؟

وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر ان کے پرسنل سٹاف افسر کے دوستوں کی سیر کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بزدار شدید تنقید کی زد میں ہیں اور ان پر قومی وسائل لٹانے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ تاہم وزیر اعلی پنجاب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے ہیلی کاپٹر کا اگر غلط طور پر استعمال ہوا ہے تو وہ ان کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ان کے دوستوں نے کیا ہے بزدار نے نہیں اور انہوں نے اس واقعے کی انکوائری آرڈر کردی ہے۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش وزیراعلی کے ہیلی کاپٹر میں ٹک ٹاکمکے لیے بنائی گئی ویڈیوز میں بزدار کے پی ایس او اور اس کے دوستوں کو فیصل آباد کی فضائی سیر کرتے ہوئے دکھایا گیا یے۔ تاہم پی ایس او کا کہنا ہے کہ جہاز فضا میں نہیں اڑا تھا اور یہ زمینی مناظر ہیں۔ لیکن دوسری جانب ویڈیو سے صاف۔پتہ چلتا ہے کہ جہاز فضا میں موجود ہے۔
سرکاری ہیلی کاپٹر میں سیر‘ اور اس سے متعلق حکومتی تردید پر کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ سرکاری ہیلی کاپٹر اب ٹک ٹاکرز کے لیے استعمال ہونے لگا ہے جو اس میں سیر کرتے پھر رہے ہیں اور حکومت اسے تسلیم کر کے مسئلہ حل کرنے کے بجائے خبریں دینے والوں کو جھوٹا کہہ رہی ہے۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں واضح ہے کہ کسی سمارٹ فون پر ’سربلند خان‘ کے نام کے ساتھ چلنے والی ویڈیو کو کوئی خاتون دیکھ رہی ہیں، اس میں جہاں ہیلی کاپٹر کے پر چلتے ہوئے ان کا سایہ نمایاں ہے وہیں بلندی سے نیچے دکھائی دینے والے کچھ مناظر بھی سامنے آتے ہیں۔
دوسری جانب ترجمان حکومت پنجاب کے مطابق ہیلی کاپٹر کے استعمال کا اختیار صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس ہے- ماسوائے کریو اور سٹاف ٹیکنیکل انسپکشن کے دوران ہیلی کاپٹر کی فلائٹ لے سکتے ہیں- پی ایس او کے پاس ہیلی کاپٹر کے استعمال کا کوئی اختیار نہیں- ہیلی کاپٹر کی لاک بک کا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
اب یہ خبر آئی ہے کہ پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال کرنے پر ان کے پرسنل سٹاف آفیسر علی حیدر اور اس کے دوستوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق تحقیقات اس بات کی یوں گی کہ کیا وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ہیلی کاپٹر کو ان کے پی ایس او حیدر علی نے واقعی اپنے دوستوں کو لاہور سے فیصل آباد لیجانے کے لیے استعمال کیا اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر اس سارے عمل کی ویڈیوز بھی وائرل کیں۔
یاد رہے کہ اس انکوائری کے آرڈر ہونے سے پہلے وزیراعلیٰ کے ترجمان نے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیصل آباد کے لیے ہیلی کاپٹر کی کوئی پرواز نہیں ہوئی تھی اور اس خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ ترجمان نے واضح کیا تھا کہ پی ایس او کے دوستوں نے صرف ہیلی کاپٹر کے ساتھ تصاویر کھینچیں اور کہیں بھی سفر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ تاہم سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ کھڑکی سے باہر کے فضائی مناظر بھی دکھا رہے ہیں۔
جب اس بارے پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعلیٰ طاہر خورشید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے لاگ بک سے ڈیٹا چیک کیا جارہا ہے اور یہ واقعہ شاید پرانا ہے۔ یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو کے لاہور آفس نے طاہر خورشید عرف ٹیکے کو بھی مبینہ کرپشن کے الزام میں طلب کر رکھا ہے۔
اس واقعے کے بارے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے پرسنل سٹاف آفیسر حیدر علی نے کہا کہ وہ ہیلی کاپٹر کو وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے ہینگر سے باہر بھی نہیں لا سکتے اور پرواز کے لیے متعدد اجازتیں درکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ’ہیلی کاپٹر فیصل آباد نہیں گیا‘۔ حیدر علی نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اس کے دوستوں نے ہیلی کاپٹر کے اندر اور باہر سیلفیاں لی تھیں۔ ہیلی کاپٹر سے لاہور کے فضائی نظارے کو ظاہر کرنے والی ویڈیوز کے بارے میں حیدر علی نے کہا کہ یہ کچھ لوگوں کی پنجاب حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ حیدر علی نے مزید زور دیا کہ چیف سیکریٹری بھی وزیر اعلی کی اجازت کے بغیر ہیلی کاپٹر کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں ملازمت سے استعفیٰ دے دوں گا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میں نے اپنے دوستوں کے لیے ہیلی کاپٹر فیصل آباد جانے کی اجازت دی‘۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ کے ترجمان نے بعض ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی خبروں کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف وزیر اعلیٰ کو ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا اختیار حاصل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عملہ تکنیکی معائنے کے دوران ہیلی کاپٹر کی پرواز لے سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ایس او کے پاس ہیلی کاپٹر کو استعمال کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور ہیلی کاپٹر کی لاگ بک کا مکمل ریکارڈ برقرار رکھا گیا ہے۔وزیراعلیٰ کے ترجمان نے زور دیا کہ خبر نشر یا شائع کرنے سے قبل صحافتی ضوابط اخلاق کا خیال نہیں رکھا گیا اور نجی ٹی وی چینلز اور نامہ نگاروں کے خلاف بے بنیاد اور گمراہ کن خبروں کی نشریات پر قانونی کارروائی کرنے کا حق استعمال کیا جاسکتا ہے۔