بشریٰ بی بی بمقابلہ علیمہ خان: قیادت کی جنگ میں جیت کس کی ہو گی؟

پی ٹی آئی کی فائنل احتجاجی کال کے دوران تحریک انصاف پر قبضے کی جنگ بھی اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکی ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے علیمہ خان سمیت اپنے تمام مدمقابل پی ٹی آئی کی قیادت کے دعویداروں کو نہ صرف سائیڈ لائن کر دیا ہے بلکہ عمران خان کے پیغامات کے نام پر پارٹی کی تمام فیصلہ سازی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور اب غیر سیاسی ہونے کی دعویدار بشری بی بی المعروف پنکی پیرنی نہ صرف کھل کر پی ٹی آئی اجلاسوں کی صدارت کرتی نظر آتی ہیں بلکہ مطالبات پورے نہ کرنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دھمکی آمیز لہجے میں للکارتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔

مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی سیاسی زندگی مسلم لیگ، پی پی پی وغیرہ سے خاصی کم ہے۔ پارٹی کے بانی عمران خان پر حقیقی معنوں میں مشکل سیاسی وقت گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد شرو ع ہوا، جب سے وہ پابند سلاسل ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ہی پارٹی کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی اسیر ہیں۔ پارٹی کے صدر چودھری پرویز الٰہی بھی کئی ماہ تک گرفتار رہے، اب وہ ضمانت پر رہا ہیں، مگرشاید مصلحتاً سیاسی طور پر ایکٹو نہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی میں پرانے لوگوں اور نئے آنے والوں میں کشمکش جاری ہے، تین چار دھڑے اور گروپ بن چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا صوبائی سطح پرخاصا طاقتور مخالف دھڑا ہے۔ عاطف خان، شہرام تراکئی، جنید اکبر وغیرہ گنڈاپور کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ادھر شیر افضل مروت کی صورت میں ایک ایسا اَن گائیڈڈ میزائل ہے جو اکثر اپنی صفوں کی طرف فائر داغ دیتا ہے۔ اس سب کا نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کارکن شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون سا لیڈر کمپرومائزڈ ہے اور کون سامخلص؟

مبصرین کے مطابق عمران خان کی قید اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ان کے کیسز اڈیالہ جیل میں چلائے جا رہے اور کارکن ان سے نہیں مل پاتے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب پس منظر اور تناظر سمجھ لینے کے بعد بڑے آرام سے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان جتنا زیادہ عرصہ جیل میں مقید رہیں گے، اتنے ہی امکانات بڑھتے جائیں گے کہ پی ٹی آئی میں گروپنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو گی، ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے پارٹی رہنما باہمی دست و گریبان ہونگے۔ جس کے بعد پارٹی میں ہی یہ مطالبہ زور پکرے گا کہ پی ٹی آئی کی قیادت ان کے گھر کا ہی کوئی بندہ سنبھالے جس پر عمران خان اور پارٹی کارکنوں کو یکساں اعتماد ہو۔

تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان سب سے زیادہ اعتماد اپنی اہلیہ بشری بی بی پر کرتے ہیں اور انہیں زیادہ تکلیف بھی ان کی گرفتاری پر ہوئی تھی۔ وہ اعلانیہ کئی بار اپنی اہلیہ پنکی پیرنی کو دینی تعلیم کے حوالے سے اپنا مرشد بھی کہہ چکے ہیں ان باتوں سے لگتا یہی ہے کہ عمران خان جلد باقاعدہ پارٹی کی عارضی قیادت اپنی مرشد بشری بی بی کے حوالے کر دینگے۔

تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان کو اپنے اس فیصلے پر اپنی بہن علیمہ خان کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی پچھلے چند ماہ میں ایک مضبوط مزاحمتی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ ان کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ صاف گو اور اپنے خیالات کے اعتبار سے یکسو اور واضح ہیں۔ کھل کر وہ ہر بات کہہ ڈالتی ہیں۔ اپنے بھائی کی طرح دبنگ ہیں اور گرفتاری، قید سے نہیں گھبراتیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ علیمہ خان کا انتخاب کرتے ہیں یا بشریٰ بی بی کا؟ حالات اور واقعات بہرحال اس طرف جا رہے ہیں کہ کم از کم عبوری مدت کے لیے پارٹی کی ذمہ داری کوئی ایسا فرد سنبھالے جس میں کارکنوں کو عمران خان کی شخصیت نظرآئے۔  اصول یہ کہتا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی یا علیمہ خان ہی ہوسکتی ہیں۔ اگر آل آوٹ وار کی طرف جانا ہے تو پھر علیمہ خان اور اگر سیاست اور احتجاج دونوں کا امتزاج بنا کر چلانا ہے تو پھر بشریٰ بی بی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کرنا موروثیت کہلائے گا یا نہیں؟ اگر عبوری دور کے لیے ایسا کیا جائے تو شاید یہ موروثیت نہیں بلکہ ہابسن چوائس کہلائے گا۔ ایسی چوائس جس کے سوا کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ تاہم  یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے ایسے کسی فیصلے پر پارٹی کے اندر سے بغاوت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ شیر افضل مروت اور علی محمد خان جیسے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما ایسے کسی بھی ممکنہ فیصلے پر سخت مزاحمت کا اشارہ دے چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں اور وہ ایسے کسی فیصلے کو تسلیم نہیں کرینگے۔

Back to top button