بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنانے پر پارٹی میں اختلاف
وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں بلاول بھٹو زرداری کی بطور وزیر خارجہ شمولیت کے معاملے پر پیپلز پارٹی میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاوک کو وزیر خارجہ بنانے کی تجویز ابھی پارٹی قیادت کے زیرغور ہے لیکن حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا جس کی بنیادی وجہ اس معاملے پر پایا جانے والا اختلاف ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شہباز شریف بلاول بھٹو کو اپنی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شامل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائی۔
اس تجویز کے مخالف پیپلز پارٹی رہنماوں کا خیال ہے کہ انکی پارٹی کے چئیرمین کو شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بننا چاہیے کیوں کہ اس سے اتحادی حکومت میں دوسری بڑی جماعت کے سربراہ کی سیاسی حیثیت مجروح ہو گی۔ اس تجویز کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شاید پیپلزپارٹی کے ورکرز اپنے چیئرمین کو مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتا دیکھ کر ناپسند کریں جو سیاست میں پی پی پی کی سب سے بڑی حریف ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے الیکشن بھی زیادہ دور نہیں اس لیے بلاول بھٹو کا شہباز کی کابینہ میں شامل ہونا پارٹی کے لئے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنے گا۔
لیکن بلاول بھٹو کے ایک قریبی سینیئر پارٹی رہنما کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے چیئرمین کو ملک کا وزیر خارجہ بننے کا مشورہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ نوجوانوں کے نمائندہ ہیں، انکا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کے ناطے سے دنیا میں بلاول بھٹو زردسری کی اچھی ساکھ ہے جو انہیں عالمی رہنماؤں کے ساتھ بین الاقوامی امور پر بات چیت میں مدد دے گی۔ پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ اس سے ان لوگوں میں انکی مقبولیت بڑھے گی جنہوں نے سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نہیں دیکھا اور اس سے پیپلزپارٹی کو مستقبل میں فائدہ ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کا بطور وزیر خارجہ تجربہ مستقبل میں وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر ان کا کیس مضبوط کرے گا، تاہم اس معاملے پر کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہو رہی اور جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔
دوسری جانب اس تجویز کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو کابینہ کا کوئی پورٹ فولیو نہیں لینا چاہیے کوں وہ پارٹی کے معاملات پر توجہ نہیں دے سکیں گے جس کا پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی قومی اسمبلی میں کی گئی اپنی تقریر میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کوشہباز شریف کے ماتحت وزیر خارجہ نہ بننے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بینظیر بھٹو کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ شہباز شریف کے ماتحت وزارت خارجہ قبول کریں کیوں کہ پی پی پی ورکرز اسے تسلیم نہیں کریں گے۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ میں پورٹ فولیوز کی تقسیم اور اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کی نامزدگی کا اب تک کوئی فارمولا تشکیل نہیں دیا گیا لیکن شہباز شریف اور آصف زرداری نے اس حوالے سے مشورے شروع کر دیے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ وہ وفاقی کابینہ کے پورٹ فولیوز کے بجائے آئینی عہدوں میں دلچسپی رکھتے ہیں کیوں کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے استعفوں کے بعد وہ عہدے خالی ہوگئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نہیں وزیراعظم شہباز شریف نے 12 اپریل کے روز بلاول ہاوس اسلام آباد میں جا کر آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کی اور نئی کابینہ تشکیل دینے کے حوالے سے مشورہ کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ نئی کابینہ میں نواز لیگ کے 12 وفاقی وزرا ہوں گے جب کہ پیپلز پارٹی کو سات وزارتیں دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ طارق بشیر چیمہ، اور محسن داوڑ کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی، جمیعت علماء اسلام اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی کابینہ میں حصہ دیا جائے گا۔