بلوچستان میں علیحدگی کی آگ پھیلتی کیوں جا رہی ہے؟


اگست 2006 میں مشرف جنتا کے ہاتھوں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد سے بلوچستان میں بھڑکنے والی آگ کے شعلے کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ علیحدگی پسندی کی اس آگ کو پھیلانے میں سب سے بڑا کردار بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے کا ہے۔
بلوچستان لبریشن آرمی پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔ تاہم فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔
2006 میں مشرف دور میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اس دوران حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔ اسی دوران اگست 2006 میں مشرف کی جانب سے ایک دھمکی کا منہ توڑ جواب دینے کے بعد نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں ایک غار میں پناہ لینا پڑ گئی۔ مشرف کے حکم پر بگتی کی گرفتاری کے لیے غاروں میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی نے نہ صرف خود کو ختم کر لیا بلکہ درجن بھر فوجی افسران کو بھی ساتھ ہی دھماکے سے اڑا لیا۔
نومبر 2007 میں بالاچ مری کی ہلاکت کا سعوی کیا گیا۔ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے بھی کہا گیا کہ وہ افغانستان سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے ایک جھڑپ میں مارے گئے۔ بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی نوابزادہ حیربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا تاہم نوابزادہ حیربیار کی جانب سے کسی مسلح گروہ کی سربراہی کے دعووں کو سختی کے ساتھ مسترد کیا جاتا رہا۔نوابزادہ بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں جو نام ابھر کر سامنے آیا وہ اسلم بلوچ کا تھا۔ اس کا شمار تنظیم کے مرکزی کمانڈروں میں کیا جانے لگا۔ اسلم بلوچ کے سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے انڈیا جانے پر ان کے تنظیم کے دیگر رہنماؤں سے اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ صحت مند ہونے کے بعد اسلم بلوچ بلوچستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقیم رہے۔اسلم بلوچ کے دور میں ہی بی ایل اے میں ان کے زیر اثر گروپ کی جانب سے خود کش حملے بھی شروع کر دیے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملے قرار دیا جاتا رہا۔
یہ تنظیم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی دہست گرد کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا۔
اس حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔ اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔
اس حملے کے بعد دسمبر 2018 میں قندھار کے علاقے عینو مینہ میں ایک خودکش حملے میں اسلم اچھو کی ہلاکت ہو گئی۔ کالعدم بی ایل اے نے اسلم کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بی ایل اے کے اہم کمانڈر اور تنظیم کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے جو گذشتہ 25 سال سے اس سے منسلک تھے۔ بی ایل اے ترجمان جیند بلوچ کے بیان کے مطابق اسلم بلوچ کے ساتھ مارے جانے والے کمانڈر کریم مری 2003 سے ،سردارو 2003 سے، اختر بلوچ 2003 اور فرید بلوچ اورصادق بلوچ 2012 سے تنظیم میں شامل تھے۔ بیان کے مطابق اسلم بلوچ مجید فدائین بریگیڈ کا بانی تھا اور اسکا ایک جوان سال بیٹا بھی ایک خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔
اسلم اچھو کی ہلاکت کے بعد اب بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب کے پاس ہے۔ بلوچ تنظیم کی قیادت میں تبدیلی کے باوجود اس کی جانب سے ’فدائی‘ سکواڈ کی کارروائیوں کا سلسلہ رکا نہیں۔ اسطرح کی بھی اطلاعات ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی ’بلوچ راجی آجوئی سنگر‘ یا براس نامی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے ایک اتحاد کا بھی حصہ بن چکی ہے جس میں بی ایل اے کے علاوہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریپبلکن گارڈز نامی تنظیمیں بھی شامل ہیں جنکی کی کارروائیوں کا مرکز زیادہ تر چین پاکستان اقتصادری راہدری کے آس پاس کے علاقے ہیں۔

Back to top button