بلوچوں نے مذاکرات کی تجویز کو مذاق قرار دے دیا


بلوچ قوم پرست رہنماؤں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ بلوچستان بارے فیصلے کرنے کا اختیار صرف فوجی قیادت کے پاس ہے اور سویلین حکمران بے بس اور بے اختیار ہیں۔
اس معاملے پر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی – ایم) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے اس بیان سے پریشانی کا شکار ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ صوبے کے ’بلوچ عسکریت پسندوں سے بات چیت‘ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر میں غلط نہیں ہوں تو، عمران خان نے صرف اس بارے میں سوچا ہے، کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور کسی شخص کے خیالات کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی حکمران اکثر اپنے فیصلوں کو تبدیل کرتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ حکومت بلوچوں سے مذاکرات سنجیدہ ہے، مینگل نے کہا کہ یہ مذاکرات نہیں ہیں بلکہ یہ مذاق والی بات یے۔
اپنے انٹرویو میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام 1947 سے اس ’مذاق‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا اختیار نہیں ہے، ’اس خطے میں دو علاقے ایسے ہیں جس کے اختیارات فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، ایک مقبوضہ کشمیر اور دوسرا بلوچستان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی سیاسی حکومت کو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کا اختیار نہیں ہے، زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے‘۔ سردار اختر مینگل نے سوال کیا کہ ’کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ کیا ہوا؟‘ انہوں نے لاپتا بلوچ افراد کے معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت لوگوں کو درپیش مشکلات کو دور کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس مقصد کے لیے آپ کو لندن یا سوئٹزرلینڈ کے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہوگی‘۔
اختر مینگل نے کہا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کو پیش کردہ 6 نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’تاہم جب ہم ان سے ملتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ جاؤ جاکر آرمی چیف یا انٹر سروسز انٹلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کرو، ان کی بات اور ان کے اقدامات سے یہ بات واضح ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ، بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتی‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ان کے ہاتھوں میں سونے کی چڑیا ہے جسے وہ اسے کبھی جانے نہیں دیں گے‘۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان کو سندوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز پر گفتگو کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک نے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کو صوبے میں عسکریت پسندی کی موجودہ لہر کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پچھلے 15 سالوں سے جل رہا ہے۔ عبد المالک نے کہا کہ ان کی پارٹی نے ہمیشہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں آپ کو صاف صاف بتاتا ہوں کہ سیاسی قیادت کے پاس اس کا حل نہیں ہے، اس کا حل فوجی قیادت کے پاس ہے‘۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ان دونوں سیاستدانوں کے دعووں کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بعض طبقات میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت اور فوج الگ ہیں تاہم موجودہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مختلف نقطہ نظر کو سننے کے بعد فیصلے کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے اختر مینگل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب انہیں بجٹ کے لیے یا مفادات کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو، انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں حکومت سے بات کرنا ہوگی‘۔ تاہم فواد چوہدری نے اعتراف کیا کہ ایک نقطہ نظر یہ موجود ہے کہ بلوچ شدت پسندوں سے ہر گز بات نہیں کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کو دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے کہ ہم کس سے بات کر سکتے ہیں اور کس سے نہیں کر سکتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ صوبے میں عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔پھر انہوں نے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی سے متعلق اپنا خصوصی معاون مقرر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تیسرے مرحلے میں ہم یہ طے کریں گے کہ ہم کس گروپس سے بات کر سکتے ہیں اور کن کن گروپس سے ہم بات نہیں کرسکتے ہیں، پھر ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس چیز کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی ریاست کو کیا مراعات دی جاسکتی ہیں یا نہیں دی جاسکتی ہیں‘۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارت سے منسلک گروپس کو پہلے ہی مذاکرات کے عمل سے خارج کردیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت سے منسلک ہونے اور بھارت کے استعمال میں ہونے میں فرق ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ان بلوچوں کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہو گا جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے بھارت سے پیسے لیے۔ لیکن دوسرے گروپوں سے بات چیت ہوسکتی ہے۔

Back to top button