بڑبولے وزرا کی بیان بازی پاکستان کے لیے مشکل بن گئی

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور بعض دیگر وفاقی وزراء کی جانب سے عوامی سطح پر خارجہ پالیسی کے اظہار کو عوامی مقبولیت یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کی منفی روش کے نتیجے میں دیگر ممالک اور اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات داؤ پر لگ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا اپنی تازہ تحریر میں کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات پاکستان کے سفارتی تعلقات، دنیا کے سامنے ہماری شبیہہ اور بین الاقوامی رائے پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات میں یہ فرق نہیں کیا جاتا کہ یہ بیانات صرف ملکی عوام کے لیے ہیں یا پھر بین الاقوامی برادری کے لیے، یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر کوئی بھی بیان دینے سے قبل الفاظ کو تولنا بہت ضروری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدے دار خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات اور انٹرویوز دیتے ہوئے ان باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ نتیجتاً غیر ضروری الجھاؤ پیدا ہوتا ہے جو ملک کے لیے سودمند نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر کئی حکومتی وزرا جن کی ذمہ داریاں خارجہ معاملات سے متعلق نہیں ہیں وہ بھی بین الاقوامی معاملات پر عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اکثر ان کے بیانات اپنے دیگر ساتھیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس اجلاس کے حاصلات پر وزیر خارجہ کے علاوہ کم از کم 3 مزید وزرا نے بھی تبصرہ کیا۔ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے ’گرے لسٹ‘ میں برقرار رہنے کی وجہ اس کے پاس جوہری صلاحیت کا ہونا ہے۔ یہ واحد معاملہ نہیں ہے کہ جس پر مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔
اس وقت افغانستان کے حالات خطرناک ہیں اور افغانستان کے مستقبل کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ ایسی صورتحال میں بھی کچھ وزرا اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں جو خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔
ملیحہ لودھی کے خیال میں سرکاری اعلانات میں مستقل مزاجی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ خارجہ پالیسی کی وضاحت ہوجائے اور خارجہ معاملات کے حوالے سے پاکستان کے مفادات اور مقاصد پر کوئی ابہام نہ رہے۔ تاہم اس عزم کو اس وقت ٹھیس پہنچتی ہے جب دیگر قلمدان رکھنے والے وزرا بھی اپنی محدود معلومات کے ساتھ صرف مقبولیت کے حصول کے لیے خارجہ معاملات پر بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔ صرف دیگر وزرا ہی نہیں بلکہ جو لوگ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات دینے کے ذمہ دار ہیں انہیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا خارجہ معاملات پر بہت زیادہ گفتگو کرنا یعنی روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرنا یا ٹی وی پر آنا مؤثر ثابت ہوگا اور کیا ایسا کرنا احتیاط کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیانات دینے سے ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے جس سے بچا رہنا ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزرا کے بیانات کی کتنی مرتبہ وضاحت کی جاتی ہے یا ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی پر آنے والے بیانات کا ایک پہلو عوامی سیاست اور عوامی مقبولیت بھی ہوتی ہے۔ یہ رجحان ان دیگر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں عوامی سیاست کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام کو خارجہ پالیسی سمجھانا اور خارجہ پالیسی کے مقاصد پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات دیے جائیں جن کا مقصد صرف عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو اور دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ٹھیس پہنچے۔ ملیحہ لودھی کے بقول جب آپ محض عوامی مقبولیت کی خاطر خارجہ پالیسی سے متعلق بیان دیتے ہیں تو اس سے یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک غیر سنجیدہ اور غیر متوقع حیثیت میں پیش ہو کیونکہ جو کچھ بھی مقامی سطح پر کہا جاتا ہے اس کے اثرات ملک سے باہر بھی جاتے ہیں اور پھر اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
کچھ وزرا میں یہ عادت بھی ہے کہ جب کوئی دوست ملک یا کوئی ادارہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کرتا تو وہ اس کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بند کمروں میں ہونے والی بات چیت جسے باہر نہیں آنا چاہیے اسے بھی عوامی سطح پر بیان کیا جارہا ہوتا ہے۔ مثلاً او آئی سی پر ہونے والی تنقید نے کس طرح مسلم دنیا میں پاکستان کو تنہا کیا، یہ سب ہی کو یاد ہوگا۔ سعودی عرب کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کا پاکستان کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا اس سے کون واقف نہیں؟
اس حوالے سے تازہ معاملہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پیش آیا ہے۔ سینئر وزرا کی جانب سے آنے والے بیانات میں کہا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کے مقاصد سیاسی ہیں۔ اس صورتحال میں ایک یورپی اہلکار نے اسلام آباد کو ایسے بیانات کے حوالے سے خبردار کیا جو کہ ’نہ صرف متضاد ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیانات اور رپورٹس کے حوالے سے موجود اختلافات کا اظہار نہیں کیا جائے بلکہ اس کا اظہار بامقصد طریقے سے اور نپے تلے انداز میں ہونا چاہیے۔ خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات کا انداز بھی بیرون ملک ایک اثر رکھتا ہے۔ کسی مسئلے پر شور شرابا کرنا اس کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے اہمیت رکھنے والے کسی مسئلے پر ہونے والے فیصلے یا پھر بین الاقوامی برادری کی عدم توجہ پر شور شرابا کرنے سے دوسروں کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا۔ تاہم یہ آپ کے مخالفین پر آپ کی مایوسی اور کمزوری ضرور ظاہر کردے گا۔خود کو مظلوم ثابت کرنے سے خود اعتمادی کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔
ملیحہ لودھی کے بقول عوامی سطح پر مظلومیت کے اظہار پر بننے والا بیانیہ نہ ہی خارجہ تعلقات بنانے میں مددگار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی بحالی کے لیے عوام کو متحرک کرتا ہے۔ مربوط، پُراعتماد اور باوقار طریقے سے خارجہ پالیسی کا عوامی سطح پر اظہار اسٹیٹ کرافٹ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لیکن اسے عوامی مقبولیت یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں دیگر ممالک اور اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات داؤ پر لگ جاتے ہیں۔