بھارتی ہندوؤں کا خیال ہے کہ تقسیم ہند مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کیلئے بہتر تھا
امریکی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر ہندو کا ماننا ہے کہ 1947 کی تقسیم ہندو مسلم تعلقات کے لیے بہتر تھی۔
پیو ریسرچ سینٹر واشنگٹن کے سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کے خیال میں ’حقیقت میں بھارتی ہونے کے لیے ہندی بولنا اور ہندو ہونا بہت ضروری ہے‘۔
یہ سروے بھارت میں تقریبا 30 ہزار افراد سے آمنے سامنے انٹرویوز پر مبنی ہے جو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل کے درمیان 17 زبانوں میں کیے۔
سروے میں بتایا گیا کہ ’(تقسیم) کے سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے بعد سروے میں انٹرویو کیے گئے مسلمانوں میں 48 فیصد کا کہنا ہے کہ برصغیر کی تقسیم، ہندو اور مسلمان کے تعلقات بری تھی، دس میں سے صرف 3 مسلمان کہتے ہیں کہ یہ بہتر تھی‘۔
کہا گیا کہ ’تاہم ہندوؤں کی سوچ اس کے بر عکس ہے، 43 فیصد ہندو کہتے ہیں کہ تقسیم ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات کے لیے فائدہ مند تھی جبکہ 37 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ نقصان دہ تھی‘۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سکھوں کا مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ماننا ہے کہ ’یہ تقسیم ہندو مسلم تعلقات کے لیے بری تھی، دو تہائی سکھ (66 فیصد) کا یہ موقف ہے‘۔
سروے کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ہندوؤں میں قومی شناخت سیاست کے ساتھ جڑی ہے۔
ان ہندوؤں میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت زیادہ پائی جاتی ہے جو اپنی مذہبی شناخت اور ہندی زبان کو حقیقتاً بھارتی ہونے کے ساتھ قریب سے جوڑتے ہیں۔
2019 کے قومی انتخابات میں ہندو رائے دہندگان میں سے 60 فیصد یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حقیقتاً بھارتی ہونے کے لیے ہندی بولنا اور ہندو ہونا ضروری ہے اور صحیح معنوں میں بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میں 33 فیصد اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
تقریبا تین چوتھائی ہندو (72 فیصد ) کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گائے کا گوشت کھائے تو وہ ہندو نہیں ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ 49 فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کوئی شخص ہندو نہیں ہوسکتا اگر وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا اور 48 فیصد کا کہنا ہے کہ ہندو ہونے کے لیے مندر جانا ضروری ہے۔
اسی طرح تین چوتھائی بھارتی مسلمانوں (77 فیصد) کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص سور کا گوشت کھاتا ہے تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔
60 فیصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ہے اور 61 فیصد کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے مسجد جانا ضروری ہے۔
سروے کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ بھارتی دوستی کرتے وقت عام طور پر اپنے مذہبی گروہ سے وابستہ رہتے ہیں۔
ہندوؤں کی بھاری اکثریت یہ کہتی ہے کہ زیادہ تر یا ان کے تمام قریبی دوست بھی ہندو ہیں۔
یہاں تک کہ سکھوں اور جین مذہب کے ماننے والوں کی بھی ایک بڑی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے دوست بنیادی طور پر یا مکمل طور پر ان کے مذہب سے ہی ہیں۔
45 فیصد ہندو کہتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہر 3 میں سے ایک ہندو (36 فیصد) کہتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں مسلمانوں کو رہتے نہیں دیکھنا چاہتے، جین مذہب کے ماننے والوں 54 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان پڑوسی کو قبول نہیں کریں گے جبکہ تقریباً تمام جین (92 فیصد) کہتے ہیں کہ وہ ہندو پڑوسی کو قبول کرنے پر راضی ہوں گے۔