بھارت کشمیر پر روڈ میپ دے تو مذاکرات کےلیے تیار ہیں

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کے متنازع خطے کی سابقہ نیم خود مختیار حیثیت کی بحالی کےلیے روڈ میپ دیتا ہے تو ان کی حکومت نئی دہلی کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کےلیے تیار ہے۔
پانچ اگست، 2019 کو بھارت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت نے اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کےلیے یک طرفہ طور پر بھارتی آئین سے اس متنازع علاقے کی نیم خود مختیار حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ نریندر مودی کی حکومت کے اس اقدام نے کشمیری عوام اور پاکستان کو مشتعل کر دیا تھا۔ بھارت نے کشمیر میں ردعمل سے بچنے کےلیے جہاں سخت لاک ڈاؤن اور گرفتاریوں کا آغاز کیا وہیں غم و غصے کے شکار پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات کو محدود کرنے اور دوطرفہ تجارت کی معطلی جیسے اقدامات سے اس کا جواب دیا۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اب مشروط طور پر بھارت سے تعلقات معمول پر لانے اور تجارت بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جمعے کو ریلیز ہونے والے برطانوی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا: ’اگر کوئی روڈ میپ موجود ہے تو ہاں ہم نئی دہلی سے مذاکرات کےلیے تیار ہیں۔‘اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف حکومت کا مؤقف تھا کہ بھارت کو تعلقات معمول پر لانے کےلیے پہلے اپنے 2019 کے اقدامات کو واپس لینا ہوگا۔عمران خان نے مزید کہا: ’یہاں تک اگر وہ ہمیں ان اقدامات کو ختم کرنے کےلیے روڈ میپ دیتے ہیں جو غیر قانونی اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف تھے۔۔ تو پھر بھی یہ ہمارے لیے قابل قبول ہے۔‘بھارت کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام عائد کرتا ہے جب کہ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر کے اپنے حصے میں عسکریت پسندوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ دونوں ہی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔2019 میں ہی بھارتی زیر انتظام کشمیر میں نیم فوجی دستے کے قافلے پر خودکش بم دھماکے کے بعد دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔عمران خان نے کہا کہ وہ ہمیشہ ہی بھارت کے ساتھ ’مہذب اور کھلے‘ تعلقات کے خواہاں ہیں۔انہوں نے یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے کہا: ’یہ عام فہم ہے کہ اگر آپ برصغیر میں غربت کو کم کرنا چاہتے ہیں تو باہمی تجارت اس کےلیے سب سے بہتر طریقہ ہے۔‘مارچ میں پاکستان کی اقتصادی فیصلہ ساز اتھارٹی کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کو اس وقت تک موخر کردیا گیا جب تک کہ دہلی کشمیر میں پانچ اگست کے اقدامات کا جائزہ نہیں لیتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کو ختم کر کے ’سرخ لکیر‘ عبور کی ہے۔عمران خان نے کہا: ’ان کو بات چیت کی بحالی کےلیے ہمارے پاس واپس آنا ہوگا۔ تاہم اس وقت بھارت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔‘رواں سال کے آغاز میں بھارتی عہدے داروں نے کہا تھا کہ دونوں حکومتوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد کےلیے بیک ڈور ڈپلومیسی چینل کھولا ہے۔تاہم پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مئی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو میں بھارت کے ساتھ رابطوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ’فارمل بیک چینل‘ نہیں۔اس سے قبل اپریل کے آخر میں پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت نے کشیدگی میں کمی اور جموں وکشمیر سمیت تمام مسائل پر بیک ڈور مذاکرات کی پیشکش کےلیے دسمبر 2020 میں پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا تھا، جس کا پاکستان نے امید افزا جواب دیا۔اس رپورٹ میں اعلیٰ سرکاری ذرائع کے حوالے سے، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، بتایا گیا کہ پاکستانی قیادت نے بھارت کی اس پیشکش پر تبادلہ خیال کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ’خاموش مذاکرات‘ کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل کےلیے تمام امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے پیشکش کی کہ دونوں ملک تمام تنازعات کو ایک ساتھ جامع مذاکرات میں زیر بحث لانے کی بجائے ان پرایک ایک کر کے بات چیت کریں۔حکومت پاکستان اور بھارت اب تک کسی قسم کے رابطوں کے بارے میں خاموش رہی ہیں اور اس بارے میں دونوں نے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔ تاہم دہلی کے بعد اسلام آباد دورے پر آئے روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کےلیے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور روس ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پھر ان رابطوں میں متحدہ عرب امارات کا نام بھی سامنے آیا تھا جو ان رابطوں میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

Back to top button