تبدیلی سرکار کا تعلیم کی بجائے برقعے پہنانے پرزور

خیبر پختونخوا کی تبدیلی سرکار نے صوبے میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی بجائے سکولوں میں بچیوں کو برقعے پہنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
پچھلے ہفتے ضلع مردان کے علاقے کے ایک مڈل اسکول کی 90 طالبات میں برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ جن کی جانب سے برقعے تقسیم کیے گئے ان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہی برقعے پہن کر طالبات آئیں، یہ یونیفارم کا حصہ نہیں ہیں۔
صوبے خیبرپختونخوا کا تعلیمی نظام ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بن گیا ہے جب ضلع مردان کے علاقے رستم کے ایک مڈل سکول کی 90 طالبات میں برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ہی رنگ کے درجنوں ٹوپی والے برقعے ٹیبل کے اوپر پڑے ہیں جب کہ دوسری تصویر میں کلاس میں موجود تقریباً 40 طالبات برقعے پہن کر بیٹھی اور کچھ کھڑی ہیں۔
یونین کونسل پلوڈھیری کے سابق ڈسٹرکٹ ممبر مظفر شاہ جن کی جانب سے برقعے تقسیم کیے گئے ہیں نے بتایا کہ پچھلے بجٹ کے پانچ لاکھ فنڈ سے انہوں نے مختلف اسکولوں کو یونیفارم مہیا کیے تھے جن میں گورنمنٹ مڈل گرلز اسکول چینہ بھی شامل تھا۔ اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ بچیوں کو مختلف رنگ کے برقعے پہن کر آنا پڑتا ہے اس لیے ایک ہی رنگ کے برقعے اور چادریں فراہم کی جائیں۔ جب کہ ان کا کہنا ہے کہ لازمی نہیں طالبات برقعہ پہن کر آئیں ہم نے صرف برقعے مہیا کیے ہیں اب اگر انہیں کوئی نہیں پہنتا تو اس کی مرضی ہے یہ یونیفارم کا حصہ نہیں ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والےضلع مردان کے سابق ناظم حمایت اللہ مایار نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں میں صرف کتابیں فراہم کی جاتی ہیں لیکن یونیفارم اور سٹیشنری نہیں دی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں ضلعی حکومت نے سرکاری سکولوں میں یونیفارم اور سٹیشنری فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب رستم کے علاقے چینہ میں مقامی لوگوں کے مطالبے پر پردے کے لیے لڑکیوں کو برقعے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سرکاری فنڈ سے ایک لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔
اس بارے میں سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی صدر عصمت شاہ جہاں نے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے بُرقعے فراہم کرنے کے فیصلے پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیئے جا رہے ہیں۔
عصمت شاہ جہاں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے تشویش لاحق ہوتی ہے اس طرح کے اقدامات راولپنڈی اور لاہور میں کیوں نہیں کیے جاتے۔
یاد رہے اس سے پہلے محکمہ تعلیم کی جانب سے پشاور اور ہری پور کے افسران نے طالبات کے لیے سکولوں میں برقعے، چادریں اور عبایہ پہننا لازمی قرار دے دیا تھا جس پر سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور پھر وزیر اعلیٰ محمود خان نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا تھا۔
ٹویٹر پر لوگوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ برقعہ چادر یا پردہ کرنا ہر انسان کی ذاتی پسند نا پسند پر منحصر ہے سرکاری سطح پر اس کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔
شفیق خواجہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ حکومت کو تعلیم کے معیار کی طرف توجہ دینی چاہیے نہ کہ برقعے یا عبائے خریدنے پر۔