تحریک انصاف کی الیکشن میں شکست یقینی کیوں ہے؟

تحریک انصاف آٹھ فروری کے الیکشن میں بہت کم سیٹیں جیت پاۓ گی کیونکہ عمران خان سمیت اس کے کئی رہنما گرفتار ہیں یا روپوش ہیں ، انتخابات تک تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہی رہے گا پی ٹی آئی کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت نئے چہروں پر مشتمل ہو گی یعنی ان کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ ہوگا نہ مناسب فنڈ اور نہ ہی الیکشن مہم کیلئے وقت .ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار انصار عباسی نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے . ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پی ٹی آئی کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن عمران خان نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں عمران نے فوج سے ہی براہ راست ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعدجو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ 9مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتارہوگئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی ہے لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔ تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر اس کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو چاہے عمران خان جیل میں ہوں یا نااہل بھی کر دیئےجائیں تو بھی انتخابات وہی جیتیں گے۔ ۔ راجہ ریاض کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی طرف سے موجودہ نگراں وزیراعظم کا نام بھی سامنے آیا اور پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نےاسے فوراً قبول بھی کر لیا۔ چند ہفتے قبل راجہ ریاض نے وسط فروری میں الیکشن ہونے کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات کے دوران عمران خان جیل میں ہی ہوں گے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان بھی نہیں ہو گا۔ اب راجہ ریاض کا خیال ہے کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ اُن کے مطابق بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہوگا لیکن تحریک انصاف کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت میںنئے چہرے ہوں گے یعنی اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ نہیں ہو گا، اُن کے پاس الیکشن مہم کیلئے وقت بھی کم ہو گا جبکہ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کی بھی کمی ہو گی۔ راجہ ریاض کے مطابق ان وجوہات کے باعث تحریک انصاف بہت کم سیٹیں جیتے گی۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مطابق بیلٹ پیپر پر اگر بلے کانشان ہوتا ہے تو تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن جیت جائے گی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور تحریک انصاف انتخابات میں سرپرائز دے دیتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسے سرپرائز کے بعدپھر کیا ہو گا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ جن کو تحریک انصاف کی جیت کا یقین ہے وہ اس نکتہ کے متعلق سوچ بچار ضرور کریں کیوں کہ انتخابات کے بعد پاکستان کسی نئی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور 9 مئی کے بعد اگر تحریک انصاف کے اندر کوئی اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اپنی مقبولیت کے باعث وہ کوئی نئی لڑائی لڑ کر جیت سکتا ہے تو ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی قوم بشمول تحریک انصاف کے ووٹرز کی بڑی اکثریت اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ جولائی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاک فوج کی بحیثیت ادارہ مقبولیت 88 فیصد تھی۔ یہ وہی سروے ہے جس میں عمران خان کو سیاستدانوں میں سب سے زیادہ مقبول دکھایا گیا تھا ۔