تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کا امکان
لاہور ہائی کورٹ کے ایک جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی ہے جس سے ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تاہم لبیک والوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کے قائد کو کسی نئے مقدمے میں نامزد کر کے انکی رہائی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 2 جولائی کو پنجاب کے محکمہ داخلہ کی درخواست مسترد کرنے سے متعلق فیصلے کا اعلان لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل صوبائی جائزہ بورڈ نے ایک بند کمرہ کی سماعت کے دوران کیا جہاں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے تحریکِ لبیک پاکستان سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کے مطالبہ کی درخواست پر سماعت کی گئی۔ سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ اس سے قبل فرانس میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک حکومت پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی کیونکہ فرانس کے صدر میکخواں کی طرف سے ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی کھلم کھلا حمایت کی گئی تھی۔
یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں تحریک لبیک اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا تاکہ اس معاملے کو تین ماہ میں طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لی جا سکے۔ 16 فروری کی ڈیڈ لائن قریب آتے دیکھ کر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید وقت طلب کیا تھا، اس کے بعد تحریک لبیک نے اپنا احتجاج ڈھائی ماہ 20 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔ ڈیڈ لائن کے اختتام سے ایک ہفتہ قبل حافظ سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی اپنے کارکنوں سے کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور اس پیغام کے بعد حکومت نے 12اپریل کے روز حافظ سعد رضوی کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ لاہور کے وحدت روڈ پر دوپہر 2 بجے کے قریب پولیس نے سعد رضوی کو ایک جنازے میں شرکت کے بعد واپسی کے دوران گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اگلے ہی دن پولیس نے ٹی ایل پی سربراہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی اور مقدمے کے اندراج کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرین لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد مقامات پر جی روڈ روڈ بلاک کردیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور دھرنے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی اور حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر سعد کو حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دو جولائی کے روز جب سعد رضوی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس کی بھاری نفری لاہور ہائی کورٹ کے داخلی اور خارجی گیٹ پر موجود تھی، عدالت کے احاطے میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ تحریک لبیک کے مظاہرین نے پولیس وین سے اترتے ہی اپنے سربراہ کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔
سعد رضوی کے وکیل ایڈووکیٹ برہان معظم ملک نے سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی نظربندی کے پانچ سے سات دن باقی ہیں، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا ضمانت کے لیے درخواست دی جائے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ 90 روزہ تحویل کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد پولیس سعد کو کسی اور مقدمے میں گرفتار کرتی ہے یا نہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سعد رضوی کی رہائی کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی جا چکی ہے۔ یہ درخواست سعد رضوی کے چچا امیر حسین نے برہان معظم ملک کی وساطت سے دائر کی ہے۔ درخواست میں پنجاب حکومت، ڈپٹی کمشنر لاہور اور سی سی پی او لاہور کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست خارج کرنا خلاف قانون فیصلہ ہے۔ سعد حسین رضوی کے خلاف کوئی مواد ریکارڈ پر موجود نہیں، ہنگامے کے دوران پولیس کے ہاتھوں 26 ورکر شہید اور450 زخمی ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے قانونی تقاضے پورے کئے بغیر 24 مئی کو سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست خارج کی۔ عدالت عظمٰی سے استدعا کی گئی ہے کہ سعد حسین رضوی کی نظر بندی کالعدم قرار دے کر جیل سے فوری رہائی کا حکم دیاجائے۔ درخواست گزار امیر حسین نے مؤقف اختیار کیا کہ کوٹ لکھپت جیل لاہور کے سپرٹنڈنٹ اور تھانہ نوانکوٹ کے ایس ایچ او نے سود رضوی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خادم رضوی کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کی سماعت انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب تحریک لبیک پر سے دست شفقت اٹھا لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جائزہ بورڈ کی جانب سے سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے کے بعد حکومت انہیں کسی نئے کیس میں گرفتار کرتی ہے یا رہا کر دیتی ہے؟