جب دلیپ کمار نے نواز شریف سے کارگل حملے کا گلہ کیا

یہ بات سنہ 1999 کی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی نے انھیں بتایا کہ انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا فون آیا ہے۔ وہ آپ سے فورا بات کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف فون پر آئے تو واجپائی نے ان سے کہا: ‘ایک طرف تو آپ لاہور میں گرم جوشی سے استقبال کر رہے تھے لیکن دوسری طرف آپ کی فوج کارگل میں ہماری سرزمین پر قبضہ کر رہی تھی۔‘ نواز شریف نے جواب دیا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ مجھے کچھ وقت دیں، میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے بات کر کے آپ کو فورا بتاتا ہوں۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی سوانح عمری ‘نیدر اے ہاک نور اے ڈو‘ میں لکھا ہے کہ ’ٹیلیفون پر گفتگو ختم ہونے سے پہلے واجپئی نے نواز شریف سے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ اس شخص سے بات کریں جو میرے پاس بیٹھے ہیں اور میری اور آپ کی گفتگو سن رہے ہیں۔’ نواز شریف نے فون پر جو آواز سنی اسے نہ صرف وہ بلکہ پورا برصغیر پہچانتا تھا۔ یہ آواز نسل در نسل انڈین اور پاکستانی فلمی شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار کی آواز تھی۔
دلیپ کمار نے کہا: ’میاں صاحب، ہمیں آپ سے یہ امید نہیں تھی۔ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال بہت پیچیدہ ہو جاتی ہے اور انھیں اپنے گھروں سے باہر جانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے کچھ کریں۔’ یہ واقعہ بی بی سی نے بیان کیا ہے۔
دلیپ کمار نے چھ دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صرف 63 فلمیں کیں لیکن انھوں نے انڈین سنیما میں اداکاری کے فن کو ایک نئی تعریف ایک نئی معنویت دی۔ ایک زمانے میں دلیپ کمار انڈیا کے بہترین فٹبال کھلاڑی بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ خالصہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے راج کپور جب پارسی لڑکیوں سے فلرٹ کرتے تھے تو تانگے کے ایک کونے میں بیٹھے شرمیلے دلیپ کمار کبھی کبھی صرف ان کی طرف نگاہ ڈال دیتے تھے۔ کون جانتا تھا کہ ایک دن یہ شخص انڈیا کے فلمی شائقین کو خاموشی کی زبان سکھائے گا۔ اور اس کی ایک نظر وہ سب کچھ کہہ جائے گی جو کئی صفحات پر مشتمل مکالمے بھی ادا نہیں کر پائيں گے۔
دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند کو انڈین فلمی انڈسٹری کا مثلث کہا جاتا ہے لیکن جتنے کثیر جہتی پہلو دلیپ کمار کی اداکاری میں تھے شاید ان دونوں کی اداکاری میں نہیں تھے۔
اگر راج کپور نے چارلی چیپلن کو اپنا آئیڈل بنا رکھا تو دیوانند گریگوری پیک کے مہذب انداز والے مسحور کن شخص کی شبیہہ سے باہر ہی نہیں آ سکے۔ دلیپ کمار نے جس انداز اور تمکنت کے ساتھ فلم ‘مغل اعظم’ میں شہزادے کا کردار ادا کیا اتنا ہی انصاف انھوں نے ‘گنگا جمنا’ میں ایک گنوار دیہاتی نوجوان کے کردار کو ادا کرنے میں کیا۔ اپنے زمانے کی معروف اداکارہ اور فلمساز دیویکا رانی کے ساتھ ایک غیر متوقع ملاقات نے دلیپ کمار کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ چالیس کی دہائی میں اگرچہ دیویکا رانی ہندوستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام تھیں، لیکن ان کی سب سے بڑا کارنامہ پشاور کے پھلوں کے تاجر کے بیٹے یوسف خان کو ‘دلیپ کمار’ بنانا تھا۔
بمبئی ٹاکیز میں کسی فلم کی شوٹنگ دیکھنے جانے والے خوبصورت نوجوان یوسف خان سے انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ اردو جانتے ہیں؟ جیسے ہی یوسف نے ہاں میں سر ہلایا انھوں نے دوسرا سوال کیا، کیا آپ اداکار بننا پسند کریں گے؟ اور پھر آگے کی کہانی ایک تاریخ ہے۔ دیویکا رانی کا خیال تھا کہ رومانٹک ہیرو پر یوسف خان کا نام زیادہ نہیں جچے گا۔ اس وقت بمبئی ٹاکیز میں کام کرنے والے نریندر شرما جو بعد میں ہندی کے ایک بڑے شاعر ہوئے انھوں نے تین نام تجویز کیے… جہانگیر، واسودیو اور دلیپ کمار۔ یوسف خان نے اپنا نیا نام دلیپ کمار کے طور پر منتخب کیا۔ اس کے پس پشت ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نام کی وجہ سے ان کے پرانے خيالات کے حامل والد کو ان کے حقیقی پیشے کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔ فلم اور اس سے منسلک لوگوں کے بارے میں ان کے والد کی رائے اچھی نہیں تھی اور وہ انھیں نوٹنکی والا کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پورے کیریئر میں دلیپ کمار نے صرف ایک بار کوئی مسلم کردار ادا کیا اور وہ بھی کے آصف کی ‘مغل اعظم’ میں شہزادہ سلیم کا کردار۔
اگرچہ انھوں نے بہت سی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی سب سے مقبول جوڑی مدھوبالا کے ساتھ بنی اور ان کے ساتھ انھیں محبت ہو گئی۔ دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ مدھوبالا پر فریفتہ تھے ایک فنکار اور ایک خاتون دونوں حیثیت سے۔ دلیپ کا کہنا ہے کہ مدھوبالا ایک بہت ہی زندہ دل خاتون تھیں جنھیں مجھ جیسے شرمیلے اور تشویش کرنے والے انسان سے بات چیت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔
لیکن مدھوبالا کے والد کی وجہ سے محبت کی یہ کہانی زیادہ دنوں تک نہ چل سکی۔ مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھور بھوشن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘ابا کو لگتا تھا کہ دلیپ ان سے عمر میں بڑے ہیں۔ حالانکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت ‘جوڑا’ تھا۔ لیکن ابا کہتے تھے کہ رہنے دو۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن مدھوبالا ان کی نہیں سنتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ وہ ان سے محبت کرتی ہیں۔ تاہم جب نیا دور فلم پر بی آر چوپڑا کے ساتھ عدالتی معاملہ ہوا تو میرے والد اور دلیپ صاحب کے مابین پھوٹ پڑ گئی۔ عدالت میں ان کا سمجھوتہ بھی ہو گیا۔‘ اسکے بعد دلیپ کمار نے مدھوبالا سے کہا کہ آؤ ہم شادی کر لیں۔ اس پر مدھو نے کہا کہ ہم شادی ضرور کریں گے لیکن پہلے آپ ماضی کی تلخیوں پر میرے والد سے معذرت کر لیں۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
وہیں سے دونوں کا بریک اپ ہو گیا۔ فلم ‘مغل اعظم’ کی شوٹنگ کے درمیان صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی کہ دونوں کی بات چیت بھی بند ہو گئی تھی۔ مغل اعظم کے کلاسک رومانٹک مناظر تب فلمبند ہوئے جب مدھوبالا اور دلیپ کمار نے ایک دوسرے کو عوامی سطح پر پہچاننا بھی چھوڑ دیا تھا۔ دلیپ کمار کی سائرہ بانو سے شادی کے بعد جب مدھوبالا بہت بیمار تھیں تو انھوں نے دلیپ کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ جب وہ ان سے ملنے گے تو وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔ دلیپ یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوئے۔ ہمیشہ مسکراتی رہنے والی مدھوبالا کے لبوں پر اس دن بہ دقت تمام ایک پھیکی سی مسکراہٹ آئی۔
اس موقع پر دلیپ کمار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدھوبالا نے کہا: ‘ہمارے شہزادے کو اسکی شہزادی مل گئی ہے، میں آج بہت خوش ہوں۔’ مدھوبالا 23 فروری 1969 کو 35 سال کی کم عمری میں وفات پا گئیں۔ دلیپ کمار کا انتقال مدھو بالا کی وفات کے 52 برس بعد 7 جولائی 2019 کی صبح ہوا۔ بلاشبہ دلیپ کمار ایک لیجنڈری فنکار تھے۔

Back to top button