جسٹس شوکت صدیقی نے جنرل فیض کو جھوٹا قرار دے دیا

حقائق سامنے لانے کی پاداش میں برطرفی کا سامنا کرنے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو جھوٹا قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ جنرل فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے تحریری جواب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی نہ صرف تردید کی ہے بلکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے کبھی بھی ملاقات کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ تاہم اب سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نےان سے ان کی رہائش گاہ پر 2018ء میں دو مرتبہ ملاقات کی تھی۔، ثاقب نثار سے کمیشن بنانے کیلیے کہا تھا،خط میں لکھامیرے ادارے کی آزادی کو فوج کے افراد کی مداخلت سے نقصان ہوا ، نشاندہی پر ریفرنس کاسامنا کرنا پڑا.

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ نہ صرف ان کے پاس گواہوں کی فہرست موجود ہے بلکہ اپنا الزام ثابت کرنے کیلئے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہے کہ جس وقت وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج تھے تب اُس وقت کے ڈی جی (سی) آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید دو مرتبہ اُن کے یہاں آئے تھے۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو وہ سپریم کورٹ کے روبرو ثبوت پیش کر دیں گے۔

خیال رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ اکتوبر 2018ء میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹائے جانے کیخلاف ان کی اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر کی جانب سے اس کیس میں جمع کرائے گئے جوابات کا حوالہ دیتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان جوابات میں میرے عائد کردہ الزامات سے انکار کے نتیجے میں ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس کیس میں تحقیقات کیے بغیر ہی انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

صدیقی نے کہا کہ 22؍ جولائی کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے ایک دن بعد انہوں نے باضابطہ طور پر اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کرکے درخواست کی تھی کہ خطاب میں انہوں نے جو الزامات عائد کیے تھے اُن کی کی سچائی اور درست ہونے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ، ’’اگر آزاد کمیشن یہ کہتا ہے کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے اجلاس میں پیش کیے گئے حقائق میں صداقت نہیں تو میں نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوں لیکن اگر میرے پیش کردہ حقائق درست ثابت ہوئے تو اُن لوگوں کا کیا ہوگا جو عدالتی نظام میں چھیڑ چھاڑ میں ملوث ہیں، پھر چاہے وہ حاضر سروس فوجی ہی کیوں نہ ہوں؟‘‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مطابق انہوں نے جسٹس ثاقب نثار سے یہ بھی درخواست کی کہ اس کمیشن کے ذریعے کھلی تحقیقات کیلئے ہدایات جاری کریں تاکہ میڈیا، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری بھی کارروائی میں شرکت کر سکے۔ اسی خط میں شوکت عزیز صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ میرے ادارے کی آزادی کو فوج اور اس کی ایجنسیوں کے چند افراد کی مداخلت کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔ میں نے مختلف مواقع پر اس مداخلت کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے مجھے اس ریفرنس کے ساتھ ایک اور من گھڑت ریفرنس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا تھا کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو باڈی نے اپنے صدر کے توسط سے مجھے 21 جولائی 2018 کو بار سے خطاب کیلئے مدعو کیا اور میں نے اسی بار کا رکن ہونے کی حیثیت سے دعوت قبول کی۔ اپنے خطاب کے دوران، میں نے آئین کے نفاذ، قانون کی حکمرانی، بار اور بینچ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی سے متعلق کچھ مروجہ حقائق پیش کیے، ایسا لگتا ہے کہ میرے پیش کردہ حقائق سے کچھ حلقوں کے لوگ ناراض ہوگئے اس پر میرے خلاف سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی۔ مجھے سوشل میڈیا اور معزز سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ جج صاحبان نے بھی میرے پیش کردہ حقائق کی تصدیق کیے بغیر ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کی طرف سے میرے خلاف غصہ کوئی نئی اور غیر معمولی بات نہیں۔ جسٹس سوکت صدیقی کے مطالبے کے باوجود جسٹس ثاقب نثار نے کوئی کمیشن تشکیل نہیں دیا اور شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے بغیر انکوائری برطرف کر دیا۔

خیال رہے کہ سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے اپنا تحریری جواب جمع کرا دیا ہے، جس میں انہوں نے عدلیہ پر اثرانداز ہونے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے کبھی بھی رابطہ نہیں کیا، نہ تو میں ان سے کبھی ملا ہوں اورنہ ہی نواز شریف کی اپیلوں پران سے کبھی کوئی بات ہوئی ہے، فیض حمید نے کہاہے کہ میں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی، مرضی کا بنچ بنوانا مقصود ہوتا تو رابطہ بھی اس وقت کے چیف جسٹس سے کیا ہوتا ؟ تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں،پیر کو جمع کروائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر اور جوڈیشل کونسل کے سامنے کسی مبینہ ملاقات کا ذکر نہیں کیا تھا، ویسے بھی ہائیکورٹ میں بنچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس تھا ،شوکت عزیز صدیقی کے پاس نہیں تھا ،اگر کبھی مرضی کا بنچ بنوانا مقصود ہوتا تو رابطہ بھی اس وقت کے چیف جسٹس سے کیا ہوتا؟شوکت عزیز صدیقی کے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں اور بعد میں آنے والے خیالات کے مترادف ہیں۔

دوسری جانب سے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی نے بھی اپنا جواب جمع کروا دیا ہے جس میں انہوں نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیاہے ،برگیڈیئر(ریٹائرڈ)عرفان رامے نے بھی اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے اور اس میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اور ملاقات کی تردید کی ہے ۔

Back to top button