جسٹس شوکت عزیز بحالی کیس میں ججز کے تیور ٹھیک نہیں

33 مہینوں کے لمبے انتظار کے بعد خدا خدا کر کے 31 مئی 2021 کو بالآخر سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزول جج شوکت عزیز صدیقی کی بحالی کے لیے اپیل کی سماعت شروع تو کی لیکن عدالت نے پٹیشن کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ کھڑا کر کے یہ عندیہ دے دیا کہ یہ کارروائی صرف گونگلوں سے مٹی جھاڑے کے لئے کی جا رہی ہے اور 30 جون کو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس شوکت کی عہدے پر بحالی کے امکانات کافی معدوم ہیں۔
اپنی ایک تقریر میں آئی ایس آئی کی عدلیہ میں مداخلت کو بے نقاب کرنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی مذمت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن نے کیس کی سماعت کے دوران یہ سوال کیا کہ کیا کسی جج کو ایسی گفتگو کرنی چاہیے۔ یعنی معزز جج کی جانب سے یہ نکتہ نہیں اٹھایا گیا کہ جو باتیں شوکت عزیز صدیقی نے کیں، ان میں جھوٹ کیا ہے، الٹا انہوں نے وکلا کی ایک نجی تقریب سے ہائیکورٹ کے سنیئر جج کی تقریر پر ہی اعتراض اٹھادیا جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ نظر ثانی کی اپیل میں شوکت عزیز کو انصاف دینے کی بجائے مزید گندا کیا جائے گا۔ 31 مئی کو اس کیس کی سماعت کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے الزام لگایا کہ اپیل کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق اگرچہ پہلے ہی فیصلہ ہو چکا تھا تاہم اس وقت مجھے سخت حیرت ہوئی جب سپیم کورٹ کے پانچ ججز نے درخواست گزار شوکت عزیز صدیقی کی مبینہ قابل اعتراض گفتگو کے مندرجات سننے اور ان کے مبنی برحق ہونے یا نہ ہونے سے متعلق دلائل مانگنے کی بجائے ایک بار پھر کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ حامد خان نے کہا کہ جب انہوں نے کیس کی سماعت کے دوران عدالت سے درخواست کی کہ وہ اپنے موکل شوکت عزیز صدیقی کی کہی گئی باتوں کو عدالت کے سامنے دہرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں بتایا جائے کہ ان میں سے کون سی بات جھوٹی اور بے بنیاد ہے تو بینچ نے کہا کہ اب دوپہر کے دو بج گئے ہیں لہازا فی الوقت یہ معاملہ یہیں پہ چھوڑ دیں، ہم پرسوں اس کیس کی دوبارہ سماعت کرتے ہیں۔ حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بینچ سے بارہا استدعا کی ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کئی مرتبہ یہ رولنگ دے چکی ہے کہ ایسے کیسز میں جج پر لگائے گے الزامات کی انکوائری کی جانی چاہیے۔لہازا شوکت عزیز صدیقی نے جو باتیں کی ہیں انکی صداقت جانچنے کے لیے انکوائری کی جانی چاہئے۔ یاد رہے کہ جج کا کہنا تھا کہ ان پر من پسند فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے حقیقت جاننے کے لیے انکوائری کیوں نہیں کروائی اور کیوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تب کی سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک ہی سماعت میں شوکت عزیز صدیقی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے کر عہدے سے معزول کر دیا؟
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنے کیس کی اوپن انکوائری کا مطالبہ کیا تھا لیکن سپریم جوڈیشل کونسل نہیں چاہتی تھی کہ حق اور سچ پر مبنی کھلی باتیں کرنے والا جج اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ حامد خان کا موقف ہے کہ اگر جج صدیقی کی تقریر میں لگائے جانے والے الزامات غلط ثابت ہو جاتے تو پھر انہیں مس کنڈکٹ کا قرار دے کر نوکری سے فارغ کیا جانا بنتا تھا مگر چونکہ ان کی جانب سے اداروں پر لگائے الزامات کی تحقیقات نہیں کی گئیں لہٰذا ان الزامات کی انکوائری کروا کر انکی حقیقت جانچی جانے چاہیے۔
یاد رہے کہ ایل لمبے انتظارکے بعد31 مئی کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سابق جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے کہا کہ بار سے ججز کا خطاب کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو طریقہ اپنایا وہ دیکھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے نوٹس کے باوجود جواب جمع نہیں کرایا، جس پر اٹارنی جنرل بولے درخواست قابل سماعت ہونے کی رکاوٹ عبور ہونے پر جواب جمع کرائیں گے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کھلی عدالت میں انکوائری نہ کرنے کا جوڈیشل کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے قابل سماعت ہونے پر ہی فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست قابل سماعت سمجھنے اور قرار دینے میں فرق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر درخواست قابل سماعت سمجھی گئی وہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریر اور اس کے نکات سے انکار نہیں کیا گیا جبکہ جوڈیشل کونسل نے سمجھا مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جس ریفرنس میں برطرفی ہوئی اس میں حقائق تسلیم شدہ ہیں، لہازا انکوائری کمیٹی کیا کرے۔ جسٹس شوکت عزیز صدریقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی بار سے خطاب کرتے رہے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری بار سے ہمیشہ لکھی ہوئی تقریر کرتے تھے اور انہوں نے کبھی تقریر میں کسی پر الزام نہیں لگایا تھا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ 2 جون تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جو فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا مگر انہوں نے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔ اب شوکت عزید صدیقی کی ریٹائرمنٹ میں بمشکل چار ہفتے باقی ہیں اس لئے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لئے ان کی پٹیشن کی سماعت شروع کردی گئی ہے تاہم جس انداز میں گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں لگتا یہی ہے کہ منصف کو انصاف کے بغیر ہی 30 جون کو عدالت سے رخصت ہونا پڑے گا۔

Back to top button