جسٹس صدیقی کیس میں ججز اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولنے لگے

آئی ایس آئی کے سیاسی کردار پر تنقید کرنے کی پاداش میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے بطور جج فارغ کیے جانے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی بحالی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج ملک کی اسی طاقتور فوجی اسٹیبلشمینٹ کی زبان بولتے دکھائی دیے جس نے جسٹس صدیقی کو برطرف بھی کروایا تھا۔
2 جون کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ "تمام ججز ضمیر کے قیدی ہوتے ہیں اور انصاف فراہم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، لہازا جج کو عوامی مقام پر بات کرتے ہوئے محتاط ہونا چاہیے۔ کھل کر بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ عوام میں چلے جائیں اداروں کے خلاف باتیں کریں اور بعد میں کہہ دیں کہ کھل کر بات کر رہا ہوں”۔ یہ الفاظ تھے جسٹس عمر عطابندیال کے جو انہوں نے برطرفی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران کہے۔
جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ’کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی ایک تقریر میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان سے آئی ایس آئی کے ایک سینیئر افسر نے گھر آ کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ نوازشریف نااہلی کیس میں ان کے خلاف فیصلہ دیں۔ تاہم جج صاحب کے انکار کے بعد ان سے یہ کیس واپس لے لیا گیا تھا۔ لیکن اس تقریر کے بعد جنرل رانی کے ہمدردوں نے جسٹس صدیقی کو عدلیہ سے نکالنے کا منصوبہ تیار کیا اور پھر اس پر عمل درآمد کر دیا۔ جسٹس صدیقی پچھلے تین برس سے اپنی بحالی کی پٹیشن ڈالے سپریم کورٹ میں اپنا کیس لگنے کے انتظار میں تھے۔ اب جب اس کیس کی سماعت شروع ہوئی ہے تو ججوں نے اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولنا شروع کر دی ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کو برقرار رکھے جانے کا غالب امکان یے۔
وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی جو شوکت صدیقی کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے آئے تھے جس میں بار کے نمائندگان بھی تھے۔وکلا کمرہ عدالت میں دوران سماعت بھی شوکت صدیقی سے مصافحہ کرتے رہے جبکہ کچھ کو وہ سر ہلا کر احوال پوچھتے رہے۔ ان کے وکیل حامد خان نے ان کی متنازع تقریر عدالت میں من و عن پڑھ کر سنائی جبکہ اس دوران شوکت صدیقی آدھا ماسک نیچے کیے خاموشی سے اپنے وکیل کو سنتے رہے۔
تقریر کے اختتامی الفاظ جہاں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے اور عدلیہ کے جانبدار ہونے کی بات کی گئی تو ایک وکیل نے انہیں انگوٹھے سے تھمبس اپ کیا جس کا جواب انہوں نے بھی ویسے ہی دیا۔ دوران سماعت ججز بھی مسلسل مشاورت کرتے رہے خصوصاً بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال، ان کی بائیں جانب جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ سرگوشیاں اور مشاورت کرتے رہے۔اس دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل حامد خان خاموش ہو گئے تاکہ ججز اپنی مشاورت مکمل کر لیں۔
تینوں ججوں کی مشاورت پانچ منٹ جاری رہی جس کے بعد درمیان میں بیٹھے جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی دائیں جانب بیٹھے جسٹس سردار طارق اور جسٹس مظہر خیل کو بھی اپنی مشاورت سے آگاہ کیا۔ وہاں موجود عدالتی صحافی آپس میں گفتگو کرتے پائے گئے کہ جس طرح دوران سماعت تین ججز کا ایک طرف اور دو جج کے دوسری جانب ہونے سے محسوس ہو رہا کہ فیصلہ دو تین کی نسبت سے آ سکتا ہے۔
دوران سماعت شوکت صدیقی کے وکیل نے کہا کہ ’میرے موکل کا بھی حق ہے کہ وہ کھل کر بات کرے‘۔ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کافی سخت لہجے میں کھل کر بولنے کے معاملے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جس مرضی کو جو مرضی بول دو اور بعد میں کہو کہ کھل کر بات کی ہے‘ یہ اچھا رجحان نہیں ہے۔‘حامد خان نےکہا کہ حالات تب ایسے تھے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے لہجے اور الفاظ پر زور دیتے ہوئے طنزاً کہا ’حالات‘۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوری تقریر سننے کے بعد یہ بھی کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسر مذکورہ جج کے گھر تین بار گئے ہیں تو یہ بھی ایک غور طلب سوال ہے کیونکہ ’آپ خود ان سے اپنے گھر میں ملتے رہے ہیں۔‘ وکیل حامد خان نے کہا کہ وہ خود آ جاتے تھے تو عمر عطا بندیال نے کہا ’آپ کے موکل دروازہ کھولتے تھے تو وہ اندر آتے تھے ناں؟ ان کی مرضی کے بغیر ان کے گھر کوئی کیسے داخل ہو سکتا ہے؟‘ سماعت کے بعد شوکت صدیقی کے ساتھ وکلا نے تصاویر بنوائیں اور وہ کافی مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔
وہاں موجود صحافیوں اور وکلا نے ان سے کہا کہ جو متنازعہ تقریر کی کارروائی بند کمرے میں ہوئی آج وہ پوری تقریر کمرہ عدالت میں سب کے سامنے پڑھی گئی تو یہ عدالتی ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ بھی بن گئی اور بات بھی سب تک پہنچ گئی۔ اس پر شوکت صدیقی نے تائیدی سر ہلایا اور کہا کہ ’یہ اچھا ہو گیا ہے‘۔ وکیل حامد خان نے بعد از سماعت میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ججز کی مرضی ہے وہ جتنا مرضی کریدیں، میں ان کی باتوں کا جواب دیتا رہوں گا۔‘ دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ججز فیصلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کرتے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے حوالے سے بہت منفی تقریر کی جس میں عدلیہ کو برا کہا اب اسی میں واپسی کے لیے کوشش کر رہے۔‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’ممکن ہے تقریر کے وقت اپنےخلاف تین سال سے جاری ریفرنسز کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی پریشان ہوئے ہوں اور جذباتی ہو گئے ہوں۔ عدلیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حقوق کا تحفظ کیا تھا۔ جواب میں دو ماہ بعد شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے ساتھ جو کیا وہ بھی دیکھیں۔‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے؟
حامد خان نےجواب دیا کہ ماضی میں سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے خلاف اپیلیں سنتی رہی ہے۔ جج کو صرف ایک انتظامی انکوائری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔جسٹس مظہر عالم خیل نے ریمارکس دیے کہ ’ماضی کے مقدمات میں جوڈیشل کونسل کی حتمی سفارش نہیں آئی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کونسل سفارش پر عمل بھی ہوچکا ہے۔`
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہمارا کام آئین کی تشریح کرنا ہے ترمیم نہیں۔ آپ چاہیں تو پارلیمان سے آئین میں ترمیم کروا لیں، ہمارا کام آئین میں گنجائش پیدا کرنا نہیں ہے۔‘ جج کی برطرفی کی سفارش سینیئر ججز کرتے ہیں کوئی اور نہیں۔ اس لیے پہلے آرٹیکل 211 کی رکاوٹ عبور کرنی ہوگی۔‘
عدالت نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت ملتوی کر دی لیکن تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔