جسٹس منیر پاکستانی تاریخ میں ولن کیسے بنے؟

طالع آزما قوتوں کی خوشنودی کے لیے نام نہاد ملکی مفاد کے نام پر بدنام زمانہ نظریہِ ضرورت متعارف کروانے والے سابق چیف جسٹس محمد منیر نے مولوی تمیز الدین کیس کے بعد ڈوسو اور یوسف پٹیل کیس میں ایسے متنازعہ فیصلے دیئے جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں آمرانہ طرز حکومت کو فروغ ملا بلکہ 1971 میں پاکستان دولخت بھی ہوگیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ نوزائیدہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں جسٹس منیر کا بڑا ہاتھ تھا اور تاریخ کبھی اس کردار کو معاف نہیں کرے گی۔
جسٹس منیر کو پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں متنازع ترین چیف جسٹس مانا جاتا ہے۔ ناقدین انہیں ایک ایسا شخص قرار دیتے ہیں کہ جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ محمد منیر نے قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے باؤنڈری کمیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب چیف کورٹ یعنی موجودہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور اس کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان یعنی موجودہ سپریم کورٹ میں بطور چیف جسٹس آف پاکستان زمہ داریاں انجام دیں۔ جسٹس محمد منیر جج کی حیثیت سے اپنے طویل کیرئیر کے دوران اپنا کردار ادا کر کے 26 جون 1981 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ملک کے ممتاز قانون دان حامد خان نے پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے بارے میں اپنی ضخیم اور مقبول کتاب کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان میں لکھتے ہیں کہ بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت اور علمی حیثیت شک و شبہے سے بالا ہے لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے۔
پاکستان کی قومی تاریخ میں جسٹس منیر کا کردار باؤنڈری کمیشن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ باؤنڈری کمیشن کے ذریعے پنجاب کی ایسی تقسیم جس کی وجہ سے آزادی کے وقت بڑے پیمانے پر ہجرت اور قتل و غارت گری کے علاوہ کشمیر جیسا پیچیدہ مسئلہ بھی پیدا ہو گیا جو برصغیر کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا۔
کہا جاتا ہے کہ جسٹس منیر نے اپنے فیصلوں میں ’نظریہِ ضرورت‘ متعارف نہ کرایا ہوتا تو ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ان کے منفی کردار کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس تو سیدھا سادھا اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف کے حصول کا مقدمہ تھا۔ حامد خان کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس میں آئین اور جمہور کی حکمرانی کے خلاف طاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادارہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کشمکش میں حصے دار بن گیا۔ یاد رہے کہ
21 ستمبر 1954 کو اسمبلی نے گورنر جنرل کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی برخاستگی کے اختیارات سلب کر لئے تھے جس کے جواب میں گورنر جنرل غلام محمد نے فوجی جنتا کی آشیر باد سے 23 روز بعد ایمرجنسی نافذ کرکے ملک کی پہلی اسمبلی کو گھر بھیج دیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیف کورٹ یعنی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آئین ساز اسمبلی کو بحال کر دیا تھا۔ مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔ حامد خان اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 64 صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔
حامد خان کے بقول جسٹس منیر جیسے شخص سے یہ قطعاً پوشیدہ نہیں تھا کہ ان کا فیصلہ ملک کے جہاز کو گہرے پانیوں میں ڈبو کر رکھ دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے نے جس میں گورنر جنرل کو انھوں نے ملکہ برطانیہ جیسے اختیارات دے دیے تھے، عدلیہ کے بارے میں عوام کے تاثر کو ہمیشہ کے لیے مجروح کر دیا۔ جسٹس منیر نے اپنے اس فیصلے میں سندھ چیف کورٹ کی سرزنش کی تھی اور لکھا تھا کہ عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ پیش نظر نہیں رکھنا چاہئے کہ فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے۔
حامد خان اس پر تنقید کی اور لکھا ہے کہ جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر تو تنقید کر لی لیکن اپنا طرز عمل بھول گئے اور اپنے فیصلے کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ اس قسم کا فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آجاتا اور خون ریزی ہوتی۔
پاکستان کی سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ کا اگلا سنگ میل یوسف پٹیل کیس ہے، اس مقدمے کی جڑیں بھی مولوی تمیز الدین کیس میں پیوست تھیں۔ فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر مولوی تمیز الدین کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کے 46 قوانین بھی کالعدم ہو گئے، اس وجہ سے کار ریاست کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گورنر جنرل غلام محمد نے اس فیصلے کے چھ روز کے بعد ہنگامی اختیارات کے حصول کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا۔
گورنر جنرل غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نامزد افراد کا ایک کنونشن منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔ اس آرڈیننس کے ذریعے گورنر جنرل نے جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت کے سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ون یونٹ میں تبدیل کرنے اور آئین سازی کے ضمن میں گورنر جنرل کو تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا اختیار تھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے فیڈرل کورٹ میں ایک ریفرنس بھی دائر کر دیا جب کہ ان ہی اختیارات کو ایک شہری نے بھی وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا، یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس کے نام سے معروف ہوا۔ اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے بہت سے قوانین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی، گورنر جنرل نے آرڈیننس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات کے ذریعے ان قوانین کی توثیق کر دی تھی، اس فیصلے کے ذریعے یہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جاتی۔ عدالت نے نامزد افراد کے کنونشن کے ذریعے آئین سازی کی اجازت گورنر جنرل کو نہ دی۔ ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعے گورنر جنرل کو 100 فیصد کامیابی اگرچہ حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔
اس پس منظر سے اشارہ ملتا ہے کہ چیف جسٹس محمد منیر اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے تو فیصلہ مختلف ہوتا لیکن آئینی ماہرین اور مورخین کے مطابق ان کے پیش نظر کچھ دیگر مقاصد تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ممکنہ فیصلے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے بے تکے جواز گھڑنے شروع کر دیے۔ جسٹس منیر مانتے تھے کہ ملک کے مستقبل کے آگے ایک خندق کھودی جا چکی ہے لہٰذا واپس مڑنے یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک و قوم کے لیے ادا کرنے کےلیے خندق پر ایک پل تعمیر کرنا ہی مشکلات کا واحد حل ہے۔ تاریخ نے اسی پل کو ’نظریہ ضرورت‘ کا نام دیا جس نے صرف عین اسی زمانے میں ملک کو ایک پیچیدہ بحران میں مبتلا کر دیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے مشکلات پیدا کیں جن کے آثار پینسٹھ ستر برس گزرنے کے بعد بھی دکھائی دیتے ہیں۔
جسٹس منیر کے سیاسی نوعیت کے دیگر فیصلوں پر بھی اسی انداز فکر کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ جسٹس منیر کا تیسرا فیصلہ جس نے پاکستانی میں جمہوری سیاسی عمل کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹیں حائل کیں، ڈوسو کیس کے نتیجے میں سامنے آیا۔ ڈوسو کیس کے ذریعے ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ اور اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے اس مقدمے میں مارشل لا کے نفاذ اور اس کی وجہ سے جائز طور پر ایک منتخب آئینی اور قانونی نظام کے خاتمے کو بغاوت قرار دینے کے بجائے اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دینے کے لیے ہینس کیلسنز کی معروف تھیوری آف سٹیٹ کا سہار لیا۔ اس تھیوری میں کہا گیا کہ ایک کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے اور اسے آئین سازی کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے انقلاب فرانس، انقلاب چین اور اور انقلاب روس کی مثالیں پیش کیں۔
سیاسی مضمرات رکھنے والے جسٹس منیر کے یہی بنیادی فیصلے ہیں جن کی وجہ سے ملک سیاسی اور آئینی طور پر اپنے راستے سے بھٹک گیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ ایسے دور رس مضمرات رکھتا تھا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔