جوڑے کو فلیٹ میں گھس کر کیوں ننگا کیا گیا؟

https://youtu.be/t1hhd0u8lPE
پاکستان اب ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جہاں کسی طاقتور کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والے مردوخواتین کو اپنی ساتھ ہونے والے ظلم کی ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ متعلقہ حکام خواب غفلت سے بیدار ہوکر انہیں انصاف فراہم کر سکیں۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے جس میں اسلام آباد کا ایک امیر کار ڈیلر اسلحے کے زور پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک فلیٹ میں موجود لڑکے اور لڑکی کو عریاں کرنے کے ساتھ ان پر تشدد کر رہا ہے اور ساتھ میں انکی ویڈیو بھی بنا رہا ہے۔ تاہم یہی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس کی گرفتاری کا باعث بن گئی۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس نے اس واقعہ کے ملزم کو تب گرفتار کیا جب یہ ویڈیو وائرل ہو کر کئی وفاقی وزرا کے پاس پہنچی جن میں سے ایک نے یہ معاملہ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ یہ واقعہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا چنانچہ وزیراعظم نے اس پر فوری ایکشن کی ہدایت کی جس کے بعد کار ڈیلر کو گرفتار کر لیا گیا۔
لیکن سماجی حلقوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ زیادتی کا شکار افراد کو انصاف کے حصول کے لیے ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاش پولیس نے پہلے کارروائی کی ہوتی اور ویڈیو وائرل ہونے سے قبل عثمان مرزا کو گرفتار کرلیا گیا جاتا کیونکہ عریاں حالت میں لڑکی اور لڑکے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد وہ معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی نظر میں صرف گرفتاری اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔ کئی لوگ یہ کہتے نظر آئے کہ چند دن بعد ملزم رہا ہو جائے گا اور اگلے ریپ کے واقعے تک ہم اس قصے کو بھول جائیں گے۔ یاد رہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ کی پولیس نے اس میں نظر آنے والے ملزم عثمان مرزا کو گرفتار کر لیا رھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد کرنے والے عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں فرحان اور عطا الرحمٰن کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر نے کہا ہے کہ عثمان نامی شخص کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب کہ مزید دو دیگر افراد کے بارے معلومات موجود ہیں جنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ واقعے کے متاثرین سے پولیس کا رابطہ نہیں ہو سکا ہے البتہ ابتدائی اطلاعات ملی ہیں کہ ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں لڑکا اور لڑکی اپنے ایک دوست کے اسلام آباد کے سیکٹر ای-الیون میں فلیٹ پر پہنچے تھے جہاں بعد ازاں اچانک یہ تمام افراد پہنچے اور ان دونوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ ملزمان نے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ نہایت نازیبا رویہ اختیار کیا اور انہیں زبردستی ننگا کرکے سیکس کرنے پر مجبور کیا۔
اس معاملے پر گلوکار علی گل پیر وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘آپ نے ریپ کی وجہ خواتین کے کپڑوں کو قرار دیا تھا لیکن اس واقعے میں تو متاثرہ جوڑا ایک فکیٹ کے اندر موجود تھا۔ انہیں ننگا کر کے تشدد کرنا اور پھر ان کی ویڈیو وائرل کرنا کہاں کا انصاف یے۔ علی پیر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد نئے پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم عمران خان تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔’
اس معاملے پر سماجی کارکن عمار علی جان کا کہنا تھا ‘ اوپر سے نیچے تک ، ہمارا معاشرہ ایسے غنڈے چلا رہے ہیں، عثمان مرزا جیسے عفریت اس ثقافت کی پیداوار ہیں جس میں وہ جانتے ہیں کہ وہ استثنیٰ کے ساتھ بھیانک تشدد کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، خواتین کو ہمارے نظام کی درندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس معاملے پر اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نےایف آئی آر میں خاتون کو ہراساں کرنے سمیت دیگر الزامات کی دفعات شامل کی ہیں۔ جنسی زیادتی کے الزامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب تک متاثرہ خاتون کا بیان ریکارڈ نہ ہو تب تک اس الزام کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ اگر زیادتی ہوئی یا اس کی کوشش بھی کی گئی ہو۔ تو اس کی دفعات بھی ایف آئی آر میں شامل کی جائیں گی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث ملزم عثمان مرزا کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں سے ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق مختلف مالی امور میں اس کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔ البتہ کسی خاتون کو ہراساں یا زیادتی کے الزامات کے تحت کوئی کیس درج نہیں ہے۔
رپورٹس کے مطابق ملزم عثمان مرزا دورانِ تفتیش تسلیم کر چکا ہے کہ وہ اس واقعے کے وقت نشے میں تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کیا۔ البتہ اس نے جنسی زیادتی کے الزامات سے انکار کیا۔
اس کیس کی تفتیش کرنے والے ایس ایچ او عاصم غفار کے مطابق ملزم عثمان نے لڑکی اور لڑکے پر تشدد اور بدسلوکی کا اعتراف تو کیا ہے تاہم ریپ کے الزامات سے انکار کیا ہے۔معاملے کی تفتیش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ملزم نے اب تک بتایا ہے کہ یہ اس کا اپارٹمنٹ تھا جس کی چابیاں اس کے کچھ دوستوں کے پاس بھی ہوتی تھیں۔ ایک شام وہاں جانے پر اسے وہاں یہ لڑکا اور لڑکی ملے۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ اس وقت وہ شراب کے نشے میں تھا اس لیے اس نے جو کچھ کیا نشے کی حالت میں کیا۔’ پولیس حکام کے مطابق وہ متاثرہ لڑکی تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مزید تفصیلات لی جا سکیں اور ریپ کے الزمات کی تفتیش کی جا سکے اور اگر وہ خاتون مزید کارروائی چاہتی ہیں تو وہ کی جا سکے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے بعد صارفین نے شدید احتجاج کیا ہے اور جب کہ سوشل میڈیا پر اریسٹ عثمان مرزا (#ArrestUsmanMirza) کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم عثمان مرزا کا اسلام آباد کے سیکٹر آئی-نائن اور سیکٹر ای-الیون میں کاروں کے شو روم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے بھی منسلک ہے۔ سوشل میڈیا پر عثمان مرزا اسلحے کے ساتھ تصاویر اپ لوڈ کرتا رہا ہے۔ حکام کے مطابق اب پولیس وہ اسلحہ بھی تلاش کر رہی ہے اور اس کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ اس کا لائسنس موجود ہے یا نہیں۔
سوشل میڈیا پر اس بارے تبصرہ کرتے ہوئے صارف ابراہیم قاضی نے کہا کہ پاکستان میں بدمعاشی کلچر بہت پرانا ہے اور صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔ وزیرِ مملکت ملیکہ بخاری نے ٹوئٹ کیا کہ اس کیس میں اسلام آباد پولیس نے فوری کارروائی کی ہے۔ آئی جی خود کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ملیکہ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ مجھے بہت سی خواتین کے پیغامات موصول ہوئے جو اس صورتِ حال میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں اور ناراض ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے وحشیوں سے نمٹنے کے لیے ریاست موجود ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی ملزم کی اسلحہ کے ساتھ ویڈیوز ٹوئٹ کیں۔ فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لوگ دارالحکومت کے دل میں موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر شمع جونیجو نے کہا کہ عثمان مرزا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ البتہ اس طرح کے لوگ اپنے پیسے اور تعلقات کی وجہ سے ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان افراد کے خلاف مقدمے کو ٹیسٹ کیس بنا کر دہشت گردی کی دفعات کارروائی کی جائے تاکہ ایسے لوگ جیل کے اندر ہی رہیں۔

Back to top button