جیو ٹی وی نے کس کے دباؤ پر حامد میر کو آف ائیر کیا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے حامد میر کو جیو ٹی وی سے آف ائیر کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں نے طاقتورجابر قوتوں کے خلاف اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا تھا، لیکن اسٹیبلشمینٹ کو سمجھنا چاہئے کہ جب آزادی اظہار پر کڑے پہرے لگا دیے جائیں گے اور جمہوریت کا ایک سیفٹی والو بند ہو جائے گا تو عوامی جذبات کھولنے شروع ہو جائیں گے، گھٹن میں مزید اضافہ ہوگا اور سیاسی دباؤ بڑھے گا۔ یہ باہمی کشمکش پھر ذاتی سطح پر اتر آئے گی۔ ایسے میں ریاستی جبر اور تشدد کا شکار ہونے والے افراد ظالم کا نام لینے اور ریاستی اداروں کی ساکھ مجروح کرنے سے گریز نہیں کریں گا اور نہ ہی خائف ہوں گے۔ سیٹھی کا کہنا ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں کے ساتھ اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔
فرائیڈے ٹائمز کے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دراصل ریاستی جبر کے ذمہ داران موجودہ ہائبرڈ سسٹم میں تیزی سے عوام کی نظروں میں آتے جا رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ میڈیا کے ناراض لوگ اب کھل کر قصور وار ریاستی عناصر کے خلاف بات کرنا شروع ہو چکے ہیں اور وہ انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے افسران کا نام لینے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ سیٹھی کے مطابق ہمارے میڈیا نے اپنی آزادی اور بچاؤ کی ایک طویل اور مشکل جنگ لڑی ہے۔ اس نے آمرانہ مزاج سول ملٹری حکومتوں، انتہا پسند جنگجووں، نسل پرست شدت پسندوں، بنیاد پرست دہشت گردوں اور فسادی طالبان کے غضب کا سامنا کیا ہے، پیمرا کے عائد کردہ بھاری جرمانے ادا کیے ہیں، صحافیوں نے سرعام کوڑے کھائے، طویل قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں، خوفناک روح فرسا تشدد برداشت کیا، پراسرار طریقے سے غائب ہوئے اور حتیٰ کے دن دیہاڑے قتل بھی کر دیے گئے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایسی دھمکیاں میڈیا کا خون خشک کر دیتی تھیں۔ لیکن اب ایسا نہیں یے اور۔میڈیا بے خوف ہوتا جا رہا ہے۔
سیٹھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ”دنیا میں صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک“ ہونے کا مشکوک اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے واقعاتی شہادت سے تصدیق ہوتی جا رہی ہے کہ عمران خان کی قیادت میں قائم ہائبرڈ نظام نے، جسے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، پاکستانی میڈیا کو غیر معمولی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ گزشتہ سات عشروں سے غیر آئینی، غیر محفوظ یا آمرانہ حکومتوں نے میڈیا کو ڈرانے، دھمکانے، دباؤ میں لانے اور کنٹرول کرنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے ہیں۔ الیکٹرانک دور کی آمد اور ”لائیو“ نجی ٹیلی وژن چینلوں کے ایک بڑی تعداد میں نمودار ہونے سے میڈیا اس دباؤ کو قدرے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا۔ انٹر نیٹ اور سائبر سپیس کی دنیا میں آزادی اظہار کا میدان وسیع ہو گیا۔ کمیونی کیشن کی عالمی تنظیمیں جیسا کہ گوگل، فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ وغیرہ اور ان کی ذیلی شاخوں جیسا کہ یوٹیوب، نے ابلاغ کو غیرمعمولی اٹھان دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو غیر محفوظ خیال کرنے والا موجودہ ہائبرڈ نظام توانا ہوتے ہوئے آزادی اظہار اور شہری حقوق کو کچلنے کے لیے غیرمعمولی تیزی دکھا رہا ہے۔
سیٹھی صاحب کارکہنا ہے کہ اس وقت پاسکت3انی میڈیا کو کنٹرول میں لانے کے لیے ہائبر نظام کی نمائندگی کرنے والے دو اداروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک ادارہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان ہے اور دوسرا ادارہ پیمرا ہے جو کہ حکومت کا ترجمان ہے۔ لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ نیب کی طرح پیمرا کو بھی فوجی ادارہ ہی چلا رہا ہے۔ اس وقت میڈیا کے خلاف دونوں اداروں کی مشترکہ جنگ جاری ہے لیکن دبنگ صحافی زیر ہونے سے انکاری ہیں۔ اب سوشل میڈیا کارکنوں کو دبانے کے لیے ایف آئی اے کو میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ دوسری جانب احتساب سے بالاتر سول ملٹری انٹیلی جنس ادارے ففتھ جنریشن وار فیئر کا تصور ذہن میں بسائے سمجھتے ہیں کہ آزاد میڈیا ضرور غیر ملکی آقاؤں کا زر خرید ہے اور وہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ چنانچہ ریاستی اداروں کی طرف سے میڈیا کو دھمکیاں، وارننگ، قانونی نوٹس، جرمانے، بندش، جسمانی تشدد، گرفتاریاں اور غائب کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دوسری جانب ان تمام تر کارروائیاں کی اطلاعات عالمی میڈیا کو مل رہی ہیں۔ ان کے پاس حقائق کے انبار جمع ہو رہے ہیں۔ اسی دوران صحافی اسد طور پر ہونے والے جسمانی تشدد نے ضبط اور احتیاط کے تمام بندھن توڑ ڈالے۔ میڈیا کے نسبتاً آزاد دھڑے اور سول سوسائٹی بھی جوابا مزاحمت پر اتر آئی۔ میڈیا کے ان جانبازوں کی فہرست بہت نمایاں ہے جنہوں نے آزادی اظہار اور آئینی حق مانگنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ ان میں اغوا کے بعد قتل کیے گئے حیات اللہ، اغوا کے بعد تشدد کا شکار ہونے والے عمر چیمہ، اغوا کے بعد قتل ہونے والے سلیم شہزاد، دن دیہاڑے چھ گولیاں کھانے والے حامد میر، احمد نورانی، مطیع اللہ جان ابصار عالم اور اسد طور شامل ہیں۔ لیکن سیٹھی کے مطابق چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں ملوث حملہ آوروں یا منصوبہ سازوں کو وہ طاقت ور اور باخبر ایجنسیاں نہیں پکڑ سکیں جن کی اجازت کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہلتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔
سیٹھی کہتے ہیں کہ جنگ اور جیو گروپ کے مالک اور چیئرمین، میر شکیل الرحمن نے نیب کی جیل میں سات ماہ تک قید تنہائی کاٹی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نادیدہ ایجنسیوں کی وارننگ کی پروا نہیں کر رہے تھے۔ اب حامد میر کو جیو ٹی وی سے ہٹا دیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے مبینہ جابر قوتوں کے خلاف اپنے جذبات کا برملا اظہار کر ڈالا۔ اس دوران بہت سے مشہور صحافی منظر عام سے ہٹا دیے گئے ہیں جو اب سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ ان میں سے بہت سوں پر گمنام مدعیوں کی طرف سے غداری کے مقدمات درج ہیں۔ اب یہ ہاہبرڈ نظام ایک صدارتی آرڈیننس لانے کی دھمکی دے رہا ہے جو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اختلافی آوازوں کا ہمیشہ کے لیے گلا گھونٹ دے گا۔ سیٹھی کے مطابق مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ کار اور ہدف کے اعتبار سے سفاک قانون ہے۔ اگر یہ مسلط کر دیا گیا تو کسی بھی فورم، خاص طور پر ٹی وی، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر ہر قسم کی تنقیدی بحث اور تبصروں کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن ذرا سوچیں کہ وہ معاشرہ جس نے آئینی جمہوریت کا مزہ چکھ لیا ہو اور مزید کا طلب گار ہو، اس کا جب سفاکیت سے گلا گھونٹ دیا جائے گا کیا ہوگا؟
سیٹھی کےمطابق یہ بات اب یقینی ہے کہ سول سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ گھٹنے ٹیک دے گا کیوں کہ ایک تو اسے عدلیہ پر اعتماد نہیں کہ وہ اس کا تحفظ کرپائے گی، اور دوسرے اس کے پاس طویل جدوجہد کے لیے وسائل نہیں۔ لیکن آخر کار معاشرے کا ایک اہم حصہ بغاوت کرے گا اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے جارحانہ ذرائع تلاش اور استعمال کرے گا۔ اور یہ ایک فطری بات ہے۔ جب کوئی ریاست اپنے شہریوں کو دیوار سے لگا دیتی ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جلد یا بدیر ان میں سے کچھ مایوسی کے عالم میں ضرور اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں، جب آزادی اظہار پر پہرہ لگادیا جائے گا اور جمہوریت کا ایک سیفٹی والو بند ہو جائے تو اس سے جذبات کھولنے لگیں گے، گھٹن میں اضافہ ہوگا اور سیاسی دباؤ بڑھے گا۔ وہ کشمکش پھر ذاتی سطح پر اتر آئے گی جس میں مظلوم شخص ظالم کا نام لینے اور ریاستی اداروں کی ساکھ مجروح کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور نہ ہی خائف ہوگا۔
سیٹھی کے مطابق ریاستی اداروں کے ساتھ اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ان کے قائدین اس ہائبرڈ سسٹم میں تیزی سے عوام کی نظروں میں آتے جا رہے ہیں۔ ملکی فضا میں بہت دیر سے طاری سکوت کا پردہ نواز شریف نے آخر کار گوجرانوالہ جلسے میں چاک کر دیا تھا۔ رواں برس کے آغاز میں حزب اختلاف کے اس جلسے میں انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر تنقید کی۔ اب اٹھایا گیا یہ قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔ میڈیا کے ناراض ترجمان کھل کر قصور وار ریاستی عناصر کی بات کرتے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے افسران کا نام لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
نجم سیٹھی کے مطابق ریاست کے غیر نمائندہ، طاقتوراوراحتساب سے بالاتر عناصر کو شک ہے کہ ان کی عمل داری، نظریے اور حکمت عملی کو چیلنج کرنے والے صحافی اور سیاست دان غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے بڑے حصوں کو یقین ہو چلا ہے کہ ریاست کے یہ عناصر ریاست میں آئینی حقوق کے محافظوں، جیسا کہ بار اور بنچ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کے خلاف ففتھ جنریشن جنگ لڑ رہے ہیں۔ تاہم دلیر صحافی قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ جج حضرات بھی مشکل سے حاصل کردہ آزادی کے تحفظ کے لیے متحرک ہو رہے ہیں۔ ہر ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جگہ لینے والے اب دو اور آ جائیں گے۔ درحقیقت وہ دن اب دور نہیں جب گھیرے میں آئے ہوئے آئینی ادارے جابر اداروں کی جکڑ کو گردن سے اتار پھینکیں گے اور معاشرے کو آزاد ہونے میں مدد دیں گے۔