جے کے ایل ایف نے آزاد کشمیر الیکشن کو ڈھکوسلہ قرار دے دیا

حقیقی طور پر ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کے قیام کی جدوجہد کرنے والے جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ نے آزاد کشمیر میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کو ایک ڈھکوسلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمینٹ سیاسی مقاصد کے لئے یہاں الیکشن تو ضرور کرواتی ہے لیکن انکی جماعت کو باہر رکھ کر نتائج اپنی مرضی کے حاصل کرتی ہے۔ لہذا یہ الیکشن محض ایک ڈھونگ ہیں۔
آزاد کشمیر میں انتخابات کے لئے اہم سیاسی پارٹیوں میں پنجہ آزمائی شروع ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان 12 جولائی کو میرپور میں پہلے انتخابی جلسہ سے خطاب کریں گے۔ لیکن خودمختار کشمیر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عملی طور پر یہ الیکشن کشمیری باشندوں کی کشمیر پر حکمرانی کے اصول سے متصادم ہے حالانکہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کے بنیادی مطالبے پر قائم ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں اصل مقابلہ پاکستان کی تین بڑی پارٹیوں کے درمیان ہی متوقع ہے۔ ان میں حکمران تحریک انصاف کے علاوہ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی انتخابات میں حصہ لیں گی۔ اگرچہ بعض کشمیری پارٹیاں بھی انتخابات میں سرگرم عمل ہوں گی لیکن ان کی کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
تاہم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یا جے کے ایل ایف سے تعلق رکھنے والی کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن اس لحاظ سے بھی ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کہ انتخابی نتائج کے بارے میں پہلے ہی سے یہ واضح ہے کہ آزاد کشمیر میں وہی پارٹی کامیاب ہوگی جس کی اسلام آباد میں فوج کی مدد سے حکومت قائم ہے۔ اس سے پہلے 2016 میں مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں حکمران ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی اور اس کے لیڈر راجہ فاروق حیدر وزیر اعظم مقرر ہوئے تھے۔ لیکن اب تحریک انصاف اس یقین کیساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے کہ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر میں بھی اس کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ یاف رہے کہ مرکز سے امداد لینے اور مراعات حاصل کرنے کی خواہش میں کشمیر کے اہم مقامی لیڈر حکمران جماعت کے ساتھ چلنا ہی اپنے بہترین مفاد میں سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سال گلگت بلتستان کے انتخابات میں یہی منظر دیکھا جاچکا ہے۔ اب اسی ڈرامے کی ریہرسل کا اہتمام آزاد کشمیر میں کیا جا رہا ہے جہاں مسلم لیگ نواز کے اسمبلی ممبران اب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں تاکہ اپنی جیت کو یقینی بنا سکیں۔
اس حوالے سے خود مختار کشمیر کی جدوجہد کرنے والے جے کے ایل ایف کے رہنماوں لیڈروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قومی جماعتوں نے کشمیری سیاست میں پنجے گاڑنے کے لئے اصولوں اور ایشوز پر سیاست کی بجائے اسے قبیلوں اور برادری کی سیاست میں تبدیل کردیا ہے۔ یاد رہے کہ جے کے ایل ایف آزاد کشمیر کے الیکشن میں اس لیے حصہ نہیں لے سکتی کیونکہ وہ کشمیر کی خود مختاری پر یقین رکھتی ہے اور اس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالف ہے۔ جے کے ایل ایف کا کہنا یے کہ کشمیر کے الیکشن میں بیشتر امیدوار کسی پارٹی پروگرام کی بنیاد پر ووٹ نہیں لیتے بلکہ برادری اور علاقے میں تعلق داری کی بنیاد پر انتخاب جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الیکشن میں کشمیر کی آزادی، مظفر آباد اور اسلام آباد کے تعلق اور وسیع تر کشمیری شناخت کے حوالے سے منشور سامنے لانے کی بجائے علاقوں کے ترقیاتی کاموں کے وعدے اور تھانہ کچہری کی سیاست پر ووٹر کو رجھایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے بااثر لوگ جنہیں عرف عام میں الیکٹ ایبلز بھی کہا جاتا ہے، اسی پارٹی کے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ غالب امکان یہی ہے کہ 2021 کے انتخابات میں بھی تاریخ خود کو دہرائے گی اور تحریک انصاف 25 جولائی کی شام کو ’آزاد کشمیر فتح‘ کرنے کا اعلان کر رہی ہو گی جبکہ دیگر پارٹیاں چند روز تک انتخابات میں دھاندلی کا شور مچائیں گی اور اس کے بعد صورت حال کو قبول کرلیا جائے گا کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ اس ’کھیل‘ کے یہی قواعد ہیں۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ جب صورت حال اتنی ہی واضح ہے اور انتخابات درحقیقت ایکشن ری پلے کی تصویر ہوتے ہیں جن میں کامیابی اسلام آباد کے حکمرانوں کا مقدر ہوتی ہے تو اس ڈھونگ کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی سرکاری پوزیشن کو درست ثابت کرنے اور یہ واضح کرنے کے لئے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مرکزی حکومت طاقت کے زور پر قابض ہے جبکہ آزاد کشمیر میں باقاعدگی سے ’آزادانہ‘ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس طرح اپنے تئیں اقوام عالم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کشمیری عوام دل و جان سے پاکستان کے ساتھ رہنے کے لئے بے چین ہیں۔ اور اگر مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان کے مؤقف کے مطابق ریفرنڈم کا اہتمام ہوجائے تو وہاں کے لوگ بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ صادر کریں گے۔
جے کے ایل ایف کی قیادت کہتی ہے کہ اس قیاس کو درست ثابت کرنے کے لئے آزاد کشمیر انتخابی ایکٹ 2020 میں کی گئی ترامیم کے ذریعے البتہ یہ یقینی بنا لیا گیا ہے کہ کسی ایسی پارٹی کو انتخاب میں حصہ لینے کے لئے رجسٹر نہ کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ مکمل وفاداری کے علاوہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ حتمی الحاق پر یقین نہ رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نئے قانون کے تحت بھارت کی تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک کی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستانی چیپٹر کو نہ تو رجسٹر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس پارٹی کے کسی امیدوار کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔ کیوں کہ پارٹی کی رجسٹریشن کے علاوہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں شریک ہونے والے ہر امید وار کو یہ ذاتی حلف نامہ بھی جمع کروانا پڑتا ہے جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزاد کشمیر میں موجود نمائیندے خود مختار کشمیر پر یقین رکھتے ہیں اور وہ کسی ایسے حلف کو نہیں مانتے جو انہیں اپنے بنیادی سیاسی مؤقف سے دستبردار ہونے پر مجبور کرتا ہو۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں منعقد ہونے والے انتخاب میں کشمیریوں کے سب طبقات کو حصہ لینے کا حق نہیں دیا جاتا بلکہ صرف پاکستان نواز عناصر ہی انتخاب میں حصہ لینے کے مجاز ہیں۔