حامد میر اور انکے دشمن دونوں کیا کرنے والے ہیں؟
معروف جرنلسٹ حامد میر کی 28 مئی کو اسلام آباد میں صحافیوں پر تشدد کے خلاف دھواں دھار تقریر کا معاملہ تاحال تھم نہیں پایا اور جیو نیوز سے آف ائیر کروانے کے بعد اب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے انکے خلاف غداری کے الزام پر عدالتوں اور تھانوں میں کیسز درج کروانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
یاد رہے کہ اسد طور پر ہونے والے تشدد کے خلاف تقریر کرتے ہوئے حامد میر نے کہا تھا کہ اگر آزاد منش صحافیوں پر تشدد کا یہ سلسلہ روکا نہ گیا تو وہ ان کارروائیوں میں ملوث افراد کے اصل کرتوت اور چہرے بھی بے نقاب کر دیں گے۔ ان کی اس تقریر کے بعد گھنٹیاں بج گئیں اور آب پارہ سے جیو نیوز کی انتظامیہ کو حامد میر سے چھٹکارا حاصل کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جیو نیوز نے حامد میر کو انکے پروگرام کیپٹل ٹاک کی میزبانی سے روک دیا اور اعلان کیا گیا کہ ان کی تقریر کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف ایسی اطلاعات ہیں کہ حامد میر بھی اب جیو نیوز کے ساتھ مزید اپنی رفاقت برقرار رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ اب شائد وہ کبھی جیو نیوز پر دوبارہ نظر نہ آئیں۔ حامد میر کا مؤقف ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ایک ایسی تقریر پر کی گئی جو اسلام آباد کی ایک سڑک پر ہوئی اور جس کا ٹی وی چینل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ اس تقریر میں نہ تو کسی فرد کا نام لیا گیا تھا اور نہ ہی کسی ادارے کا، لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہوئے جیو نیوز کے سیٹھوں نے پہلے گھٹنے اور پھر ماتھا ٹیکتے ہوئے حامد میر کو آف ائیر کر دیا۔
تاہم ایسا کرنے کے باوجود پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا افراد کی تسلی نہیں ہوئی لہذا انہوں نے حامد میر کو مذید تنگ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کروانے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے. اس حوالے سے انکے خلاف غداری کے مقدمے کے لیے پہلی درخواست گوجرانوالہ کے ایک مقامی وکیل منظور قادر بھنڈر نے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں دائر کی ہے۔جب غداری کیس میں درخواست گزار بھندر سے پوچھا گیا کہ انھیں حامد میر کی تقریر کے کس حصے پر اعتراض ہے تو انکا کہنا تھا کہ ‘جہاں پر انھوں نے جنرل باجوہ کا نام لیا ہے. جب انھیں بتایا گیا کہ اس تقریر میں تو جنرل باجوہ کا نام لیا ہی نہیں گیا تو درخواست گزار نے کہا کہ پھر ان سے یہ درخواست لکھتے ہوئے ‘انیس بیس’ ہو گئی ہو گی.’
یاد رہے کہ اس سے قبل منظور قادر بھنڈر نے نیشنل پارٹی کے مرحوم رہنما حاصل بزنجو کے خلاف بھی سینیٹ الیکشن میں دھاندلی کا الزام ڈی جی آئی ایس آئی پر لگانے کے جرم میں درخواست داخل کروا چکے ہیں. جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ صرف فوجی افسران کے حوالے سے ہی اتنے حساس کیوں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ‘مقدمات تو میرے دل کی آواز ہوتے ہیں’۔
اسی طرح عصمت اللہ راجپوت نامی شخص نے گوجرانوالہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن تھانے میں حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے سائل کا فرض ہے کہ اپنے ملک کے ناموس پر آنچ نہ آنے دے۔ درخواست گزار عصمت علی راجپوت روزنامہ مخلوق کے ایک چیتھڑا اخبار میں سب ایڈیٹر ہے۔ اس معاملے پر حامد میر نے طنز کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں پوچھا کہ اس روزنامہ مخلوق کا خلائی مخلوق سے کوئی تعلق تو نہیں؟ خلائی مخلوق کے چماٹ نے اہنی درخواست میں لکھا یے کہ ایک صحافی ہونے کے ناطے سائل کا فرض ہے کہ ہمارے شعبہ میں جو کالی بھیڑیں ہیں جو شعبہ صحافت کو بدنام کر رہی ہیں کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف قانونی ایکشن لیا جائے۔ اسکی درخواست کے مطابق حامد میر نے آرمی اور آئی ایس آئی پر الزام تراشی کی ہے کی جعلی صحافی اسد طور پر ہونے والے حملے میں متزکرہ ادارے ملوث ہیں جو کہ سوائے دروغ گوئی کے کچھ نہیں ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے سائل سمیت کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشس کی گئی ہے۔ لہازا درخواست ہے کہ پی پی سی 124 کے تحت حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
حامد میر کے خلاف انداج مقدمہ کیلئے ایک اور درخواست نام نہاد صحافی عامر سلیم راٹھور کی مدعیت میں تھانہ تیموریہ کراچی میں دی گئی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ حامد میر نامی شخص نے عسکری اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی جس سے پاکستان بھر کے عوام کی دل آزاری ہوئی، عامر سلیم راٹھور کے مطابق دنیا جانتی ہے کہ حامد میر پہلے افغانستان, پھر انڈیا اور اب اسرائیل کا پاکستان میں ایجنٹ ہے، لہذا سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے فوری طور پر حامد میر کو غداری کے مقدمہ میں سزائے موت سنائے تاکہ پاکستان میں کوئی غدار پیدا نہ ہو۔ تاہم خلائی مخلوق ق کے ایماء پر یہ درخواست دینے والا عمرسلیم شاید بھول گیا کہ پاکستان میں آج دن تک اگر کسی شخص کو ملک دشمنی اور آئین شکنی پر سزائے موت کا حقدار قرار دیا گیا ہے تو اس بھگورے کا نام جنرل مشرف ہے جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پھانسی سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ حامد میر کے خلاف بغاوت سمیت نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمات درج کروانے کے لیے درخواستیں دینے والے عام شہری ہیں جبکہ اس حوالے سے قانون واضح ہے کہ بغاوت سمیت ریاست مخالف دیگر جرائم کا مقدمہ صرف وفاقی یا صوبائی حکومتیں ہی درج کروا سکتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر حامد میر کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروانے کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔ پی ایف یو جے کا مذید کہنا ہے کہ ’حامد میر پر پابندی کا مطلب صرف ایک صحافی پر حملہ نہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی آزادی پر حملہ ہے۔‘ صحافی تنظیم نے سوال اٹھایا کہ ‘یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ ہے یا چینل نے خود یہ اقدام اٹھایا؟’پی ایف یو جے کے مطابق ‘پہلے صحافیوں پر حملے کیے جاتے ہیں پھر اس کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے فاشسٹ ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔’
خیال رہے کہ پاکستان کی قومی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں حال ہی میں دو ایسے بل پیش کیے گئے جن کا مطالبہ پاکستانی کے صحافی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔یہ بل پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا عہدیداروں کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ لیکن صحافیوں کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون کو قومی اور صوبائی سطح پر متعارف ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یوٹیوب ویلاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہوئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسد طور پر حملے کے بعد حامد میر کی جانب سے اس کے احتساب کے لیے ایک مظاہرے میں تقریر کی گئی جس کے بعد اب انھیں اس کی سزا دی گئی۔ اس کے مطابق ‘اس سے موجودہ جابرانہ ماحول میں اظہار رائے کی آزادی کی ذمہ داری اٹھانے والے صحافتی اداروں اور حکام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ صحافیوں کے لیے ان کی نوکریوں کی قیمت سینسرشپ، ہراس اور جسمانی تشدد نہیں ہونے چاہییں۔’ دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ جیو نیوز کی انتظامیہ حامد میر کا پروگرام فوری طور پر بحال کرے ورنہ صحافی تنظیمیں سڑکوں پر احتجاج کریں گی۔