حکومت مارچ کیوں نہیں روک سکتی

وفاقی حکومت آزاد کشمیر مارچ کے شرکاء سے نمٹنے کی خاطر طاقت کا استعمال کرنے سے اس لیے گریزاں ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا موازنہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ کیا جائے گا جو کہ کشمیری عوام کو طاقت کے زور پر دبا رہی ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا آزادی مارچ لائن آف کنٹرول پر چکوٹھی سیکٹر کے قریب پہنچ گیا ہے۔ آزادی مارچ کے شرکا لائن آف کنٹرول پار کرکے سری نگر پہنچنا چاہتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومت انہیں ایل او سی پار کرنے سے مسلسل منع کر رہی ہے۔ شرکاء سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت کے پاس طاقت کے استعمال کی آپشن ختم ہوچکی ہے۔ اگر حکومت پاکستان آزاد کشمیر میں مظاہرین کو طاقت کے زور پر روکے گی تو پھر اس کا موازنہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ کیا جائے۔ اس مشکل صورتحال سے وزیراعظم عمران خان سخت پریشان ہیں۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یا جے کے ایل ایف کی جانب سے شروع کیے گئے آزادی مارچ کو حکومت پاکستان اور آزاد جموں کشمیر حکومت کی حمایت حاصل نہیں۔ دوسری جانب حکومت پاکستان بھی نہیں چاہتی کہ جے کے ایل ایف کا مارچ ایل او سی کراس کرے۔ اس سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں بھی جے کے ایل ایف پر پابندی ہے۔ یہاں واضح رہے کہ جے کے ایل ایف کے چیرمین یاسین ملک اس وقت بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں ڈاکٹر توقیر گیلانی اس مارچ کی قیادت کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس مارچ کو حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت ہر صورت روکنا چاہتی ہے۔ تاہم بھارتی میڈیا مسلسل الزام لگا رہا ہے کہ حکومت پاکستان اس مارچ کی سپانسر ہے کیونکہ پاکستانی میڈیا بھی ماضی کے برعکس جے کے ایل ایف کو کوریج دے رہا ہے حالانکہ کے عام حالات میں پاکستانی میڈیا ایسا نہیں کرتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے مارچ کی صورتحال سے پاکستانی قیادت کو آگاہ کردیا ہے۔ حکومت پاکستان بھی نہیں چاہتی کہ جے کے ایل ایف کے کارکنان ایل او سی پار کریں کیونکہ اس طرح بھارت سرحدی خلاف ورزی کا واویلا مچا کر جنگ کی ابتدا کر سکتا ہے۔ اگر بھارت کی جانب سے مارچ کے شرکا پر فائرنگ کی تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا بھی خدشہ ہے۔ 5 اکتوبر کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ٹویٹ کیا اور لکھا کہ میں کس مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری غیر انسانی کرفیو میں پھنسے کشمیریوں کے حوالے سے آزاد کشمیر کے لوگوں میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتا ہوں لیکن اہل کشمیر کی مدد یا جدوجہد میں ان کی حمایت کی غرض سے جو بھی آزاد کشمیر سے ایل او سی پار کرے گا وہ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو ڈر ہے کہ وہ بیانیہ جس کے ذریعے پاکستان پر اسلامی دہشت گردی کا الزام لگا کر ظالمانہ بھارتی قبضے کے خلاف اہل کشمیر کی جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، ایل او سی پار کرنے کی صورت میں بھارت کو مقبوضہ وادی میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اس پار حملہ کرنے کا جواز ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آزاد جموں و کشمیر کے لوگ اپنی مرضی سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایل او سی پار کرنا چاہتے ہیں اور حکومت پاکستان ان کی حمایت نہیں کر رہی۔ تاہم دوسری طرف وزیراعظم کے اس بیان سے قوم پرست کشمیری سخت ناراض ہیں۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کی داخلی تحریک کو کسی قسم کی ڈکٹیشن دیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر پہلے ہی پاکستان کو خبردار کر چکے ہیں کہ حالات ان کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ پاکستان کو مسئلے کے حل کے لیے کشمیریوں کو آگے کرنا ہوگا جو کہ اس معاملے کے اصل فریق ہیں۔ جے کے ایل ایف کے مارچ کے حوالے سے راجہ فاروق حیدر اس وقت پس پردہ کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کشمیریوں کے لیے مسئلہ کشمیر کی نوعیت پاکستانی تناظر سے بہت مختلف ہے۔ اگر پاکستانی شہریت رکھنے والا کوئی فرد ایل اوسی کی طرف بڑھے گا تو یقیناً یہ عمران خان کا فرض ہے کہ وہ اسے روکیں اور طرح سوچتے ہیں لیکن پاکستان کی قیادت کو آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button