عمران کی غلط حکمت عملی نے حکومت اور فوج کو مزید قریب کیسے کیا ؟

 25 اکتوبر سے قبل عدالتی اصلاحات بارے آئینی ترامیم  کی منظوری کو حکومتی بقا کا ضامن  قرار دیا جا رہا ہے اسی لئےاتحادی حکومت 25 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی مدت ملازمت ختم ہونے سے قبل دو تہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کےلیے پرعزم ہے۔

تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جارحانہ اور شرپسندانہ حکمت عملی کی وجہ سے اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک پیج پہلے سے بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ اب کون چیف جسٹس بنتا ہے کون نہیں اس سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ موجودہ حکومتی نظام اپنی 5 سالہ مدت پوری کرے گا۔

سینئر تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ منصور علی شاہ آئیں یا نہ آئیں حکومت کہیں نہیں جارہی ہے اور حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے اور یہ نظام پانچ سال چلے گا، منیب فاروق کا مزید کہنا تھا کہ پچیس اکتوبر کے حوالے سے نت نئی چیزیں، افواہیں اور دعوے سامنے آ ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترامیم پر اتفاق ہوجاتا ہے تو اچھی بات ہے نہ بھی ہو تو چھبیس ، ستائیس اٹھائیس کسی بھی وقت نمبر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو بھی آئینی ترمیم منظور کروا لی جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 25 اکتوبر کو چیف جسٹس کی تبدیلی سے حکومت قطعا متاثر نہیں ہو گی کیونکہ پہلے بھی کچھ ایسے فیصلے ہوئے ہیں جس پر عملدرآمد نہیں ہوا اور آگے بھی عدلیہ کے ایک مخصوص حصے کی جانب سے کوئی ایسی کوشش کرے گا تو بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ طاقتور ترین حلقوں کے ساتھ حکومت نے نظام کو اسی طرح چلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے

تاہم سینیئر صحافی سلیم صافی کے مطابق بلاول بھٹو یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل منظور نہیں ہوگی تو ہماری حکومت چلی جائے گی ، اگر کچھ افراد پورا سسٹم لپیٹ دیں تو وہی لوگ حکمرانوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں،سلیم صافی کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ وزیراعظم کو پانچ یا تین جج نکال سکتے ہیں یہ خود ہی انہوں نے اپنی تشریح کر لی ہے، سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ ہے باقی تمام اداروں نے اس سے جنم لیا ہے۔ اس لئے تمام اداروں کو پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرنا ہو گی۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات سے لگتا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بالادست منوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

دوسری جانب جہاں ایک طرف نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین آئینی ترامیم کے حوالے سے مکمل یکسوئی پائی جاتی ہے وہیں مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترمیم کی حمایت یا مخالفت بارے واضح موقف دینے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کو درمیان میں لٹکا رکھا ہے۔

 ذرائع کے مطابق جے یو آئی ف کی جانب سے تاحال آئینی ترامیم سے متعلق ڈرافٹ کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔ جے یو آئی ف کی جانب سے آئینی ترامیم سے متعلق تجاویز سامنے آنے پر ہی حکومت کی جانب سے جے یو آئی ف سے مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگا۔

ذرائع کے مطابق جے یو آئی کے آئینی ترامیم بارے حکومتی حمایت کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ مولانا نے حکومتی مجوزہ آئینی ترمیم کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے جمیعت علمائے اسلام کے آئینی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ نے الگ آئینی عدالت کے قیام کو اپنے مسودے سے خارج کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے عدالتی اصلاحات پر مبنی اپنی آئینی ترامیم کا مسودہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کو دینے کی بجائے اس میں مزید تبدیلیوں کےلیے اپنے آئینی ماہرین کی ٹیم کو واپس بھیج دیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے آئینی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مولانا کی طرف سے انہیں مسودہ واپس کیے جانے اور اس میں مزید تحریف و اضافے کی ہدایت کی تصدیق کردی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مو لانا فضل الرحمٰن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سرد مہری کے اظہار نے حکمران اتحاد کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو بڑے جو ش و خروش سے ترمیم کے بھاری پتھر کو اٹھانے کا عزم لیکر آگے بڑھے تھے اب اسے چوم کر چھو ڑدینے کے انداز میں یہ کہہ کر بات کررہے ہیں کہ ان کی طرف سے ترامیم کی منظوری کےلیے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی تھی۔

تاہم پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت اپنے ارادے میں کمزوری ظاہر نہیں کررہی وہ ان کی منظوری کےلیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرےگی۔

ذرائع کے مطابق آنے والا ہفتہ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی میدان میں بڑی جاری جنگ کے لئے فیصلہ کن ہوگا اس میں حکومت کی رجعت کسی بڑے واقعہ کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ تحریک انصاف ترامیم نہ ہونے سے رونما ہونے والے نتائج کا خیرمقدم کرنے کےلیے تیار بیٹھی ہے خواہ ان سے ملک، جمہوریت اور سیاست پر کس قدر ہی گراں اثرات کیوں مرتب نہ ہوں۔

ترامیم ہوجائیں تو پیپلزپارٹی اسے اپنی دستار میں نئے سنہری پھول کے طور پر پیش کرے گی تاہم اگر وہ کامیاب نہ ہوئی تو جدوجہد کے عزم سے سرشار رہے گی۔ تاہم’’حکومتی ماہرین‘‘ ہر طرح کی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کےلیے تیاری مکمل کرچکے ہیں وہ ناکام رہنے کو آپشن نہیں مانتے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت 25 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ سے قبل آئینی ترامیم منظور کروانے میں کیسے کامیاب ہوتی ہے؟

Back to top button