خاتون کی ٹی ایل پی کے مظاہرین سے الجھنے کی ویڈیو: ‘تم توڑو شیشہ، میں بھی ادھر سے ہی جاؤں گی’

تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری پر ہونے والے پر تشدد احتجاج میں ایک ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں مظاہرین کی جانب سے سڑک بند ہونے کے باعث آگے جانے سے روکنے پر ایک خاتون مظاہرین سے الجھتی دکھائی دیتی ہیں، جس میں وہ خاتون مظاہرین کو اشتعال دلانے والی باتیں بھی کرجاتی ہیں، جہاں اس خاتون کی ہمت کو داد دی جارہی ہے وہیں کچھ لوگ خاتون کی اس حرکت کو غیر دانش مندانہ قرار دے رہے ہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ ہجوم کےلیے یہ بہت عام بات ہے کہ وہ گاڑیوں پر حملہ کردیں، اس لیے یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ ایسی صورت حال میں جہاں مشتعل مظاہرین موجود ہوں تو ایسے میں وہاں سے بچ نکلنا ہی بہتر ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں گزشتہ تین روز سے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد پولیس اہلکاروں کی ہے۔ انتشار اور کشیدگی کی صورت حال زیادہ تر لاہور میں دیکھنے میں آئی۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی بے شمار ویڈیوز میں مظاہرین میں شامل افراد کو پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بناتے دیکھا جا سکتا تھا۔ پولیس اور مظاہرین میں یہ جھڑپیں کافی سنگین نوعیت کی تھیں۔ لاہور پولیس کے مطابق سو سے زائد زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں دو زندگی کی بازی ہار گئے۔ ایسے میں لاہور ہی سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک خاتون کسی مقام پر ان کی گاڑی کا راستہ روکنے والے ڈنڈا بردار مظاہرین سے الجھ جاتی ہیں۔

ویڈیو میں ان کی شکل نظر نہیں آ رہی۔ ویڈیو میں ایسا دیکھا جا سکتا ہے کہ چند ڈنڈا بردار نوجوان لڑکوں نے ایک سڑک بند کر رکھی ہے جہاں وہ ایک گاڑی کو جانے دیتے ہیں تاہم ان خاتون کی گاڑی کو روک لیتے ہیں۔
اس پر وہ گاڑی سے اتر آتی ہیں اور مظاہرین سے الجھ پڑتی ہیں۔ لڑکے انہیں متبادل راستہ اختیار کرنے کا کہتے ہیں۔ وہ انہیں جواب دیتی ہیں کہ ‘پیٹرول کے پیسے تم دے دو تو میں چلی جاتی ہوں۔’
ویڈیو میں ان خاتون کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انہوں نے قریب ہی لاہور کے علاقے عسکری الیون میں جانا ہے تاہم ان لوگوں نے راستہ روکا ہوا ہے۔
مظاہرین کے ساتھ بحث کے دوران ایک موقع پر وہ غصے میں سامنے کھڑے لڑکوں کو آگے سے ہٹنے کا کہتی ہیں۔ اس پر ہجوم میں شامل ایک نوجوان لڑکے کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ‘نہیں ہٹتے تم کیا کر لو گی۔’
اس پر وہ مزید غصے میں انہیں للکارتی ہیں کہ ‘تم نے گاڑی کا شیشہ ٹوڑنا ہے نا، تم توڑو شیشہ، میں بھی ادھر سے ہی جاؤں گی۔’ اس پر وہ اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے مرد کو گاڑی آگے بڑھانے کا کہتی ہیں۔ مظاہرین میں شامل لڑکے اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔
ان میں سے ایک نوجوان ان خاتون کو بتاتا ہے کہ ‘گاڑی ہمارے اوپر سے ہی گزرے گی۔ ہم نہیں ہٹیں گے۔’ اس پر وہ انہیں ایسے الفاظ میں لعن طعن کرتی ہیں جو با آسانی اشتعال انگیز ہو سکتے تھے۔ تاہم مظاہرین اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اور انہیں متبادل راستہ لینے کا کہتے رہتے ہیں۔
ویڈیو کے آخر میں بھی وہ اپنی گاڑی کو چلانے والے شخص کو گاڑی آگے بڑھانے کا کہتی سنائی دیتی ہیں مگر وہ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ایسا کرنا درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر بحث کرتے ہوئے زیادہ تر افراد نے ان خاتون کو سراہا۔
ٹویٹر پر ایک صارف احسن رضوی نے ان کی ویڈیو لگا کر لکھا ‘براوو۔ یہ خاتون تمغہ جرات کی حقدار ہیں جنہوں نے بھٹہ چوک کے پاس مشتعول ہجوم کے سامنے یوں کھل کر ٹی ایل پی کے کارکنوں کو چیلنج کیا اور کھری کھری سنائی ہیں۔’
ٹویٹر ہی پر ایک صارف شاہزیب نے لکھا ‘ایک بہادر خاتون ٹی ایل پی کے کارکنوں کا سامنا کرتے ہوئے اور انہیں سبق سکھاتے ہوئے۔ ہزاروں خاندانوں کو اس بیوقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ خاتون کو مزید ہمت ملے۔’
تاہم اسی بحث میں چند افراد ایسے بھی تھے جن کے خیال میں ان خاتون کو مشتعل ہجوم کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
مونسٹر مونک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘آپ کی ویڈیو یہ دکھاتی ہے کہ ‘بدمعاش’ کہے جانے والے افراد نے بظاہر کافی تحمل کا مظاہرہ کیا خصوصاً اگر ان کی کچھ ویڈیوز دیکھیں جہاں انہوں نے لوگوں کا بھرکس نکال دیا۔ وہ خوش قسمت تھیں انہیں مار نہیں پڑی۔’
ایک اور صارف کیپٹن زیڈ اے کے نامی ایک صارف نے سوالیہ انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ ‘وہ بچ کیسے گئیں؟ میں ان کی جرات کا معترف ہو سکتا ہوں لیکن یہ بیوقوفانہ بھی تھا۔ وہ ایسے افراد کے ساتھ بحث کر رہی ہیں جو مذہب وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔’
تاہم ماہرین کی رائے میں اس ویڈیو کے گرد ہونے والی بحث کے دونوں اطراف میں سے کون درست اور کون غلط ہو سکتا تھا۔
سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے امور کے ماہر سلمان طارق کا کہنا تھا کہ انہوں نے ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی تھی اور ان کے خیال میں مشتعل ہجوم سے الجھنا انتہائی خطرناک ہو سکتا تھا۔
‘ہجوم کی جو نفسیات ہوتی ہے وہ کافی جارحانہ ہوتی ہے۔ اس ویڈیو میں لوگ کافی کم تھے لیکن اگر زیادہ ہوتے اور ان میں اشتعال زیادہ ہوتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے خاتون ہونے کا لحاظ نہ کرتے۔’
سلمان طارق کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی زندگی کی حفاظت کے نقطہ نظر سے وہ اس بات کا مشورہ نہیں دیتے کہ مشتعل ہجوم کو اکسایا جائے یا للکارا جائے یا قسم کی زبان استعمال کی جائے جو اس ویڈیو میں نظر آئی۔
سکیورٹی کے ماہر سلمان طارق کے مطابق ‘ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی ایسا شخص پایا جاتا جو ان سے بہت بد تمیزی سے پیش آتا ہے اور ایکشن لیتا۔’
ان کے خیال میں ‘ہجوم کےلیے یہ بہت عام بات ہے کہ وہ گاڑیوں پر حملہ کرتے ہیں، شیشے توڑتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ گاڑی کو آگ بھی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔’ سلمان طارق کا استدلال تھا کہ اگر کسی شخص کا سامنا ایسی صورت حال سے ہو جائے جہاں کہ مشتعل مظاہرین موجود ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس سے بچ کر نکل جائیں۔ ‘عموماً آپ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ آگے ہجوم موجود ہے۔ اس کیس میں ان کے ہاتھ میں ڈنڈے بھی تھے۔ ہو سکتا ہے کوئی اور اسلحہ بھی ہو۔ ہم نے دیکھا ہے ان احتجاجی مظاہروں میں انہوں نے پولیس تک کو پتھر اور انیٹیں ماری ہیں اور بے شمار پولیس والوں کو زخمی بھی کیا ہے۔’ سلمان طارق کا کہنا تھا کہ ہجوم کےلیے یہ مشکل نہیں ہوتا کہ وہ کسی عام راہگیر کو بھی نشانہ بنا ڈالیں۔ ان کے مطابق ایسی صورت حال میں بہتر حکمتِ عملی یہی ہوتی ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو اس جگہ سے نکل جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں ایسی صورت حال میں سادہ سا اصول یاد رکھنا ضروری ہے کہ ‘کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ ایسی صورت حال سے ان پیشہ وارانہ لوگوں کو نمٹنے دیں جو اس کےلیے تربیت یافتہ ہیں۔’

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button